سیکولرزم کی تباہ کاریاں اوراس سے بچنے کی تدابیر

Standard
سیکولرزم
کی تباہ کاریاں اوراس سے بچنے کی تدابیر
از:       (مولانا)
حذیفہ وستانوی
استاذ
جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم، اکل کوا، 
نندور بار
سیکولرزم، اصل میں لاطینی زبان کالفظ ہے، جسس
کا عربی میں ”علمانیة“ اور اردو میں ”لادینیت“ ترجمہ ہوتاہے۔ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کو اللہ رب العزت نے ایسے حیرت انگیز اور معجزانہ علمِ وحی سے مالامال
کیا تھا کہ جس کی روشنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی بعثت مبارکہ سے
لے کر قیامت تک آنے والے تمام فتنوں سے امت کو باخبر کردیا تھا، تاکہ امت ضلالت
اور گمراہی سے مکمل اجتناب کرے، الحاد اور بے دینی جو سیکولرزم کے نام سے اس وقت
دنیا میں فتنہ برپا کیے ہوئے ہے، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ روایت منطبق
ہوتی ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”دعاة علی ابواب جہنم من
اجابہم الیہا قذفوہ فیہا“ یعنی ایک زمانہ میں امت پر ایسا وقت آئے گا جس میں
شرپسندوں کے ٹولے جو جہنم کے دروازے پر کھڑے ہوں گے، انسانوں کو اور خاص کر
مسلمانوں کو اس کی طر ف بلائیں گے، جو ان کی بات تسلیم کرلے گا، وہ اسے اس میں
یعنی جہنم میں جھونک دیں گے، قربان جائیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعبیر
بیان پر، کتنے مختصر الفاظ میں کتنی عظیم خبردی، لفظ ”دعاة“ کے ذریعہ بے دین ملحد،
زندیق، سیکولر دین دشمنوں کی کثرت کی طرف اشارہ کیا، جس کا دنیا مدتوں سے مشاہدہ
کررہی ہے، غالب گمان یہ ہے کہ اس حدیث سے اسی سیکولرزم کے داعیوں کی طرف اشارہ ہے،
لہٰذا ہم سردست سیکولرزم کے بارے میں مختصر معلومات پیش کرنے جارہے ہیں، امید ہے
کہ دل کے آنکھوں سے اس کا مطالعہ کر کے سیکولرزم کے فتنے سے اپنے آپ کو اور پورے
معاشرہ کو بچانے کی فکر کریں گے،
اللہم وفقنا لما تحب وترضی واجعل آخرتنا خیرا
من الاولیٰ
۔
سیکولرزم کیا ہے؟
 سیکولرزم در اصل ایک ماسونی یہودی تحریک
ہے، جس کا مقصد حقوقِ انسانی، مساوات، آزادی، تحقیق و ریسرچ، قانون دولی (
International Law)
اور تعلیم کے نام پر، دین کو زندگی کے تمام شعبہ جات حیات سے نکال دینا، اور مادیت
کا گرویدہ بنا کر، روحانیت سے بے زار کر دینا ہے، یہ کہہ کر کہ دین کی پیروی
انسانی آزادی کے منافی ہے، لہٰذا سیاست اور دین، معیشت اور دین و معاشرت اور دین
یہ سب الگ الگ ہیں ۔ دین، طبیعت اور فطرت کے خلاف ہے، لہٰذا کسی بھی دین کی پیروی
درست نہیں، ان کی صورت حال ایسی ہی ہے، جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے:
و
اذا قیل لہم تعالوا الی ما انزل اللہ و الی الرسول رایت المنافقین یصدون عنک صدودا
۔
(سورة النساء: پ۵/۶۱) یعنی جب ان سے کہا جاتاہے آجاوٴ اس چیز کے طرف جو اللہ نے
نازل کی ہے ( یعنی دین اسلام) اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی (تعلیمات) کی طرف
(یعنی شریعت پر مکمل طور پر عمل پیرا ہونے کی طرف تو (اے مسلمان) تو دیکھے گا،
منافقوں کو کہ وہ لوگوں کو آپ (یعنی شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم) پر عمل کرنے
سے روک رہے ہوں گے۔
یہاں قرآن کریم کا مضارع کا صیغہ ”یصدون
لا نا اس بات کی طرف اشارہ ہے، کہ یہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک
خاص نہیں بلکہ استمرار کے ساتھ ہر زمانہ میں ایسا ہوگا، اور پھر آگے”
صدودا“کہہ
کر اشارہ کیا کہ وہ اس پر مصر بھی ہوں گے۔
سیکولرزم کا آغاز کہاں اور کیسے
سیکولرزم دراصل یورپ کی پیداوار ہے، اس کی وجہ
یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب اسلام نے آکر علم کے دروازے کھولے اور اسلام کا اثر
ورسوخ مشرق سے نکل کر مغرب میں غرناطہ اور بوسنیا تک پہنچا، تو اہل مغرب کی آنکھیں
کھلیں، اس لیے کہ سولہویں صدی عیسوی تک یورپ میں کنیسا اور چرچ کو مکمل اثر و رسوخ
حاصل تھا، جب سترھویں صدی میں اہلِ یورپ نے مسلمانوں کی علمی آزادی اور ترقی کو
دیکھا اور عیسائی پادریوں اور بادشاہوں کی تنگ نظری اور تعصب کو دیکھا اور اس کے
نتیجہ میں علمی تحقیقات پر پابندی اور کوئی رائے پیش کرنے والے کو ظلم کا شکار
ہوتے دیکھا تو انہیں ایسا محسوس ہوا کہ عیسائیت ہی دراصل ہماری ترقی کے لیے روڑا
اور رکاوٹ ہے، لہٰذا سترھویں صدی میں اہلِ مغرب نے مذہب سے بے زاری کا اعلان
کردیا، اور یہ پسِ پردہ دنیا کی خفیہ ترین تخریبی تحریک ماسونیت کی کارستانیوں اور
سازشوں کا نتیجہ تھا، اس طرح جب ان سیکولرزم کے حاملین کو کامیابی ملی، تو انہوں
نے اعلان کیا کہ ”اب عقل کو آزادی ہوگی اور مذہب کے قید وبند سے انسان آزاد ہوگا
اور طبیعت اور نیچریت کا بول بالا ہوگا“۔
جب یورپ میں سیکولرزم کو غلبہ حاصل ہوا، تو اب
وہ دنیا پر راج اور سلطنت کے خواب دیکھنے لگے، اس طرح انہوں نے مشرق کا رُخ کیا
اور ۱۷۸۹ء میں مصر پر حملہ کیا اور انیسویں صدی کے آنے تک پورے مشرق کو اپنی لپیٹ
میں لے لیا، کچھ ناعاقبت اندیش، مادہ پرست مسلمانوں کو بھی اپنے چنگل میں لے لیا۔
 مشرق و مغرب میں سیکولرزم کے علمبردار
سیکولرزم کو پھیلانے میں جن بدباطن اور کج فکر،
لوگوں نے اہم رول اور کردار ادا کیا، ان میں سے، مغرب میں ڈارون جس نے تحقیق کے
نام پر ”نظریہٴ ارتقاء“ کی بنیاد ڈالی، جو دنیا کا سب سے بڑا فریب شمار کیا جاتا
ہے، اسی طرح فرائیڈ نے”نظریہٴ جنسیت“ پیش کیا، اسی طرح ڈارکا یم نے ”نظریہٴ عقلیت
“پیش کیا، جان پول سارترنے ”نظریہٴ وجودیت “کی تحدیدکی، پھرآدم اسمٹھ نے ”کیپٹل
ازم“سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادڈالی، کارل مارکس نے ”کمیونزم“کی بنیادڈالی،
جوپچھلے تمام مادی افکار کا نچوڑاورخلاصہ تھا اور مشرق میں کمال اتاترک، طہٰ حسین،
جمال عبدالناصر، انور سادات، علی پاشا، سرسید، چراغ علی، عنایت اللہ مشرقی، غلام
پرویز، غلام قادیانی وغیرہ نے انہیں افکار کو مشرق میں عام کرنے کا بیڑا اٹھایا،
اوراب اسی کو گلوبلائیزیشن یعنی”عالمگیریت“کانام دیدیاگیاہے، دیکھنااب کیاہوتاہے،
اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین یارب العالمین!
سیکولرزم کا ہدف
سیکولرزم کا اصل ہدف امتِ مسلمہ کو موجودہ
دورمیں اسلام سے بے زارکر کے، مادیت سے وابستہ کرناہے، تاکہ مغرب کی بالادستی،
برابراس پر باقی رہے، اس لیے کہ اسلامی فکر، اسلامی روحانیت اوراسلام سے وابستگی
یہی مسلمانوں کی کامیابی اوربالادستی کی شاہِ کلید ہے، لہٰذامسلمانوں کو اپنی پوری
توجہ، ایمان اور اس کے تقاضوں پرمرکوزکرناچاہیے، نہ کہ مادیت کے مکروفریب کے جال
میں پھنسنا۔ اللہم انانسئلک العفو والعافیة فی الدین و الدنیا و الاخرة۔
سیکولر فکررکھنے والوں کی اقسام وانواع
سیکولرزم سے متأثرافرادکوتین قسموں میں تقسیم
کیاجاسکتاہے:
(۱)      پہلی
قسم: ان کافراوربے دین لوگوں کی، جوصراحةًاوراعلانیةً اسلام کا ہی نہیں،کسی دین کا
انکارکرے، اگروہ مسلمان ہو اورایسی بات کرے تو مرتدشمارہوگا۔
(۲)      دوسری
قسم:ان منافقوں کی، جونام کے مسلمان ہویعنی بظاہراسلام کو تسلیم کرتے ہوں، مگر دل
میں کفرکوچھپائے ہوئے ہوں، ان کا پورامیلان اندر سے اسلام مخالف، بلکہ اسلام دشمن
نظریات کی جانب ہوں، اس وقت مسلم معاشرہ میں یہ لوگ بکثرت پائے جاتے ہیں، چند
نشانیوں سے ان کو پہچانا جاسکتا ہے، وہ نشانیاں یہ ہیں :
(الف)   وہ
اپنے آپ کو مصلحِ ملت، مفکرِاسلام یامجددٹھہراتے ہوں، حالاں کہ اسلام اور اسلام کی
بنیادوں کوڈھانے کی کوشش  کررہے ہیں، ان کی حالت اسلامی تعلیمات
اورمطالبات کے بالکل برعکس ہو، یہی لوگ اسلام اورمسلمانوں کے لیے سب سے زیادہ
نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔
(ب)    وہ
یہ آواز لگاتے ہوں کہ اسلامی تعلیمات، عصرِحاضرمیں جاری کرنے کے قابل نہیں، اس لیے
کہ (العیاذباللہ)وہ فرسودہ ہیں، وہ قابلِ اعتبار نہیں، لہٰذاعالمی قانون کو مسلمان
تسلیم کرلے، اس لیے کہ (العیاذباللہ)وہی مسلمانوں کے لیے شریعتِ اسلامیہ کے مقابل
زیادہ نفع بخش اورمفیدہے۔
(ج)     وہ
اباحیت پسندی کے شکارہوں،حرام کو حلال کرنے اورحلال کوحرام کرنے کے درپے ہوں،
اوراس کواپنے گناہ کی سنگینی کا احساس بھی نہ ہو۔
(د)      دین
پر عمل کرنے والوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہوں اوردینی شعائرمثلاً،ڈاڑھی،
ٹوپی، کرتہ وغیرہ کا مزاق اڑاتے ہوں اوردیندارکوکم عقل تصور کرتے ہوں۔
(ھ)     اس
کے فکری رجحان کی کوئی سمت متعین نہ ہو، جدھرکی ہواادھرکا رُخ، اس کی طبیعت ثانیہ
ہو، مثلاًجب تک روس کوغلبہ تھاکمیونزم کے حامی، اور اب امریکہ کو غلبہ حاصل ہے، تو
سرمایہ داریت اورجمہوریت کے شیدائی ہوں۔
(۳)     تیسری
قسم: ان مسلمانوں کی ہے، جوسیکولرزم اورجمہوریت،حقوقِ انسانی،آزادیٴ نسواں،آزادیٴ
رائے،دین اورسیاست میں تفریق جیسے اصطلاحات سے متأثرہوں،جن کو آج کل مغربیت زدہ
مسلمان، کہاجاتاہے، یہ اسلام کو مانتے ضرور ہیں، اس کی حقیقت کے بھی قائل ہیں،
مگردینی علم سے دوری یاکمی کی وجہ ان خوشنمااصطلاحات سے متأثرہوگئے ہوں۔
سیکولرزم کو عام کرنے کے اسالیب
اسلام دشمن طاقتوں نے خاص طورپر صہیونی، صلیبی
اشتراک، جس کوماسونیت بھی کہاجاسکتاہے، سیکولرزم کومسلمانوں میں عام کرنے کے مختلف
طریقے اپنائے۔
(۱)      الیکڑانک
اورپرنٹ میڈیا کے ذریعہ یہ پروپیگنڈہ کرنا کہ اسلام، یہ دور انحطاط کی کھوج ہے،
اور اس کی تعلیمات، روایات قدیمہ کی حامل ہے، (العیاذ باللہ) مادی ترقی کے دور میں
قابل عمل نہیں رہا، حالاں کہ ایسا ہرگز نہیں، الحمدللہ! کسی بھی زمانہ میں انسان
کی حقیقی ترقی، جس کو روحانی ترقی سے بھی تعبیر کیا گیا ہے، اس کا حامل اگر ہے تو
یہی اسلام، اس لیے کہ انسان کی حقیقی ترقی یہ ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کو راضی
کرلے ، اور دنیا میں اس کا تقرب حاصل کرلے، قرآن کا اعلان ہے ”
ان
اکرمکم عنداللّٰہ اتقٰکم
“ (سورة الحجرات:پ۲۶، آیت۱۳)تم میں سب سے زیادہ مکرم و معزز
و برگزیدہ اللہ رب العزت کے نزدیک وہ ہے، جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو یعنی گناہوں
سے اسی طرح لوگوں کو اور مخلوق کو تکلیف دینے سے مکمل اجتناب کرتا ہو، یہ ہے اصل
ترقی کا زینہ۔
(۲)      العیاذ
باللہ یہ پروپیگنڈہ کرنا کہ اسلام خونی مذہب ہے، یعنی اس کی تاریخ ظلم و جور سے
بھری ہوئی ہے، حالاں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے، اگر تاریخ کا غائرانہ مطالعہ کریں،
تو معلوم ہوگا کہ پچھلے سو سال میں جمہوریت اور سیکولرزم کے نام پر دنیا میں جتنا
ظلم ہوا اور قتل و غارت گیری ہوئی، اسلام میں، اس کی ایک بھی نظیر نہیں ملتی، ایک
سروے کے مطابق ”اوریا مقبول جان“ مشہور صحافی تحریر فرماتے ہیں کہ پچھلے سو سال
میں تقریباً سترہ کروڑ انسانوں کو جمہوریت کے بھینٹ چڑھا دیا گیا، اس سے سولہویں
صدی میں ریڈ اینڈینز کو سو ملین کی تعداد میں نئی دنیا کی دریافت کے نام بے قصور
موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، غرناطہ میں تیس لاکھ مسلمانوں کو صلیبیت کے نام پر
قربان کردیا گیا، فلسطین میں لاکھوں مسلمانوں اور یہودیوں کو عیسائیوں نے بلاجرم
قتل کردیا، جب کہ اسلامی تاریخ میں مسلمان امراء کی فراخ دلی، رعایا سے ہمدردی اور
انصاف کوئی پوشیدہ چیز نہیں، نیک مسلمان سلطانوں اور امراء نے تو ظلم کیا ہی نہیں،
بل کہ فاسق و فاجروں بھی نے کیا بھی ہوگا، تو وہ اس ظلم کے سویں حصہ کیا، یا
ہزارویں حصہ کے برابر بھی نہیں ہے، ہماری تاریخ خونی اور ظالمانہ نہیں، اگر
ظالمانہ تاریخ ہے، تو تاریخ، انہی سیکولرزم کی نعرہ دینے والوں کی ہے، مگر اپنا
عیب چھپانے کے لیے وہی اپنا قصور مسلمانوں پر تھوپ دیا ”
فانتظروا انا معکم منتظرون“۔
(سورہٴ یونس:پ۱۱،آیت۳)
(۳)     قرآن
و حدیث کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ کرنا کہ وہ ایک خاص جماعت او ر نسل کے لیے نازل
کیا گیا تھا، یا یہ کہنا کہ قرآن و حدیث کی، العیاذ باللہ کوئی حقیقت نہیں ، وہ تو
انسان ہی کا مرتب کردہ ہے، جب کہ حقائق اس کا صراحت کے ساتھ انکار کرتے ہیں، قرآن
کا اعلان ہے ”
کتاب
اَنزلنٰہ الیک
۔
(سورة ابراہیم:پ۱۳،آیت۱)
 و
ما ینطق عن الہوی ان ہو الا وحی یوحیٰ
“ وغیرہ۔(سورة النجم:پ۲۷،آیت۲،۳)
(۴)     ایمان
بالغیب کا انکار کرنا اور اس کا مزاق اڑانا اور یہ کہنا کہ نیچریت اور طبیعت اس کو
تسلیم نہیں کرتی، اور اس کے بارے میں یہ کہنا کہ ملائکہ، جن، جنت، دوزخ ،حساب،
برزخ، قدر، معراج، معجزات، انبیاء وغیرہ، یہ سب محض خرافات ہیں، اس کی کوئی حقیقت
نہیں، حالاں کہ قرآن نے پہلے پارے کے پہلے ہی رکوع میں متقی مسلمانوں کا وصف بیان
کرتے ہوئے کہا ”
یوٴمنون
بالغیب

(سورة البقرة:پ۱، آیت۳) وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔اور اس طرح نقل کو عقل پر ترجیح
کے قائل ہیں۔
(۵)      مسلمان
معاشرہ میں موجود اخلاقی قدروں کو ملیامیٹ کرنا اور اباحیت پسندی کو فروغ دینا،
تعلیمی نصاب میں ایسا مواد سمو دینا، جس سے ابناء قوم طفولیت ہی سے ایمان باللہ،
ایمان بالقیامة سے محروم رہے ،اور جنسیت، مادیت، فیشن پرستی کا دلدادہ ہو جائے،
ماحول ایسا بنا دیا جائے کہ عشق بازی، حیاسوزی، نوجوانوں کی عادت بن جائے، ایسی
ایسی فلمیں اور سیریلیں بنائی جائیں، جس میں مار پیٹ، لڑائی، جھگڑا، فتنہ، فساد،
عشق و محبت، بداخلاقی و بدکرداری کو فروغ حاصل ہو ، حالاں کہ بداخلاقی، بدکرداری،
عشق بازی، فتنہ فساد سے، تعلیمات اسلامیہ مکمل اجتناب کا درس دیتی ہیں۔
(۶)      توحید
کے مقابلہ میں روشن خیالی، مزعوم اعتدال پسندی کو جس کو دوسرے لفظوں میں 
Modernism کہاجاسکتا
ہے، ہر طبقہ میں عام کرنے کی مکمل کوشش کی جارہی ہے، جو سراسر اسلامی تعلیمات کے
منافی اور معارض ہے۔
(۷)     اسلام
کے خلاف جاری فکری یلغار کو ثقافت اور تبادلہٴ ثقافت کا نام دیا جارہا ہے، تاکہ
فکری یلغار کا احساس زندہ نہ ہو، اور مسلمان مِن و عَن مغربی ثقافت کو دلجمعی کے
ساتھ قبول کرلے۔
(۸)     بلادلیل
و برہان اسلام کو ”دہشت گرد“ اور مسلمانوں کو متعصب اور ظالم، قاتل و سفاک اور بے
رحم ثابت کیا جارہا ہے، تاکہ لوگ اسلام اور مسلمان سے متنفر رہے، اور اسلام کو
فروغ حاصل نہ ہو۔
(۹)      شراب،
جوا، سود اور محرمات کو خوشنما اور نئے نئے ناموں سے مسلمانوں میں متعارف اور عام
کیا جارہا ہے، تاکہ حلال و حرام کی تمیز باقی نہ رہے، اور مسلمان بے دھڑک اس کی
خرید و فروخت اور استعمال میں مشغول ہو جائے۔
(۱۰)     اسلام
اور اس کی تعلیمات مثلاً حدود، تعزیرات وغیرہ اور اسلامی شخصیات، مثلاً رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ، مجاہدین وغیرہ سے استہزاء اور ان کی زندگیوں کو توڑ
مروڑ کر پیش کرکے مشکوک کرنا وغیرہ، اللہ ان ملعون حرکات کرنے والوں کو غارت کرے
اور مسلمانوں کے دلوں کو اسلام ، اسلامی شخصیات اور اس کی تعلیمات کی محبت سے
لبریز کردے۔ آمین یا رب العالمین!
(۱۱)     مغربی
باطل نظریات کو خوب عام کرنا، اور ہر ممکن یہ کوشش کرنا کہ ان باطل نظریات کے
حاملین کو علم و تحقیق کے باب میں بلند ترین مقام دینا، اور یہ کہنا کہ یہی لوگ
حقیقت میں دنیائے علم و تحقیق کے درخشندہ ستارے ہیں اور انہوں نے دنیا پر بڑا
احسان کیا، حالاں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے، کیوں کہ علم و تحقیق کے نام پر انہوں
نے دنیا کو گمراہ کیا، مثلاً ڈارون ،فرائیڈ، مارگو لیٹھ، کارل مارکس، آدم اسمیٹھ،
دور کایم، جان پول، وغیرہ یہ ائمہ ضلال تو ہوسکتے ہیں، مگر محسن نہیں ہوسکتے،

لعنة علیہم و الملائکة والناس اجمعین
!
سیکولرزم کے بارے میں شرعی فیصلہ
 علمائے اسلام اور فقہاء عظام نے سیکولرزم
کو ایک مستقل مذہب قرار دیا ہے، جس کو ”دہریت“ کہا جاسکتا ہے، لہٰذا وہ کفر صریح
ہے، اور مسلمانوں کو اس کا مقابلہ کرنا ضروری ہے، مسلمانوں میں سیکولرزم فکرکے ان
حاملین کو منافقین کہا جائے گا، جو اسلامی تعلیمات کا انکار کرے، سیکولرزم کو حق
بجانب تصور کرے، اسلامی محرمات کو حلال گردانے۔
سیکولرزم کے دنیا پر اثرات
سیکولرزم نے سب سے زیادہ نقصان عالم اسلام کو
پہنچایا، اس لیے کہ سیکولر فکرکے حاملین نے، جس میں کمال اتاترک جیسے لوگ شامل
ہیں، خلافتِ اسلامیہ کے سقوط کے سبب بنے، اور عظیم دولت عثمانیہ اسلامیہ کو تقسیم
در تقسیم سے دوچار کیا، یہاں تک کہ وہ پچاس حصوں میں تقسیم ہوگئی، اسرائیل کا
ناپاک وجود اسلامی ریاستوں کے بیچ عمل میں آیا۔ دنیا میں فحاشی، بدکاری، اور ہر
برائی کو پھیلانے کے راہیں ہموار ہوگئیں، اور پوری دنیا کو جمہوریت اور عالمگیریت
کے نام پر جہنم کدہ بنا دیا گیا۔
اسلام کے غلبہ کی راہیں کیسے ہموار ہوسکتی ہیں؟
ہم مسلمان ،ہیں ہمارا دین، دین برحق ہے ہمارا
رب اللہ ہے، جو قادر مطلق مالک الملک الہ واحد اور ذوالجود والکرم ہے اور ہمارے
رسول خاتم النبیین سید المرسلین ہیں، اور ہماری تعلیمات ہر زمانہ میں انصاف امن
وسلامتی کی ضامن ہیں، اسی کو حق ہے کہ وہ دنیا پر قیادت وسیاست کرے، مگر ہم نے اس
کی قدر نہ کی ذلت ومسکنت کے شکار ہوئے، اب ہمیں کرامت اور غلبہ کیسے دوبارہ ہوسکتا
ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، تو آئیے ہم اسی پر روشنی ڈالتے ہیں۔
(۱)      سب
سے پہلے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ایمان میں رسوخ پیدا کریں کیوں کہ قرآن کا
اعلان ہے”
وانتم
الاعلون ان کنتم مو
ٴمنین“۔(آل عمران:۱۳۹) تم ہی سر بلند رہو گے اگر
موٴمن رہو۔ موٴمن کس کو کہتے ہیں؟ دل وجان سے اسلام کو تسلیم کر کے، اس پر عمل
کرنے اور اس پر سب کچھ قربان کردینے کا نام ہے ایمان اور موٴمن ہونا۔
(۲)      کتاب
اللہ اور سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہر حالت میں ہم مضبوطی کے ساتھ تھام
لیں، یعنی ہمارا ہر قول اور ہر عمل قرآن وسنت کے منشاء کے مطابق ہوجائے، حدیث میں
ہے ”
ان
تمسکتم بہما لن تضلوا بعدی ابدا
“۔
(۳)     تقویٰ،
یعنی ہرحالت میں اللہ سے ڈرنے لگ جائیں، اور ہر طرح کے منکر اور حرام سے مکمل
اجتناب کریں، اور ہر فرض وسنت کو اپنی زندگی کا لازمی جز بنائیں۔
(۴)     اسلا
می تعلیمات کوخوب عام کریں، اور یقین رکھیں کہ کامیابی اسی پر عمل کرنے میں ہے نہ
کہ کسی اور چیز میں۔
(۵)      دعا
کا التزام کریں، اپنے لیے پوری امت کے لیے، رو رو کر اللہ کے دربار میں دعائیں
کریں، خاص طور پر یہ دعا کریں کہ اللہ امت کو منافقین کے شر سے نجات دے اور بچائے
اور اسلام پر ثابت قدم رکھے۔
(۶)      غفلت
سے بیدار ہو، اور دشمنوں کے مکر وفریب سے اور ان کے سازشوں سے واقف ہوں اور اس سے
بچنے کی تدابیر کریں، اللہم اجعل کیدہم فی تضلیل۔
(۷)     اس
وقت سب سے بڑی ضرورت اسلامی تعلیمات سے واقف ہونا ہے، لہٰذا اس جانب توجہ دیں، تا
کہ حلال حرام کی تمیز ہو سکے، علماء سے اپنے مسائل میں رجوع کریں، اور اپنے بچوں
کی اسلامی تربیت کی فکر کریں۔
(۸)     ٹیلی
ویژن کی نحوست سے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو، کوسوں دور رکھیں ،فلم، کھیل
کود اور فضول چیزوں میں وقت صرف نہ کرکے اللہ کی طرف متوجہ ہوں۔
اللہ ہماری ہر طرح کے شر سے حفاظت کرے اور ہر
طاعت کے کرنے کی توفیق دے اور پوری امت کو اسلام سے وابستہ کردے۔آمین یا رب
العالمین!
***

 

 مأخوذ

قرآن کا چیلینج قیامت تک—- ملحدین کی نقاب کشائی

Standard

بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم، قرآن ِ کریم کا چیلینج رہتی دینا تک پر ملحدین نے آیتوں کو اپنے سیاق و سباق سے نکال کر جواب دینے کی ناکام کوشش کی ہے کہ قرآن کے اس چیلینج کے اس جیسی ایک سورت بھی لاکر دکھادو کا جواب مشرکینِ مکہ کے شعراء نے دیا ہے۔

قرآن کریم ہی کے انداز میں ہمارا ان ملحدوں سے سوال ہے

 هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

اپنی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو،

یہ بات ثابت کردو کہ واقعی مشرکینِ مکہ نے جواب دیا ہے اور اس قرآن عظیم جیسی کوئی سورت ان لوگوں نے بھی لکھی تھی۔

اٹکل پچوؤں سے تمھاری بات سچ ہونے والی نہیں ہے۔ تمھارے جھوٹے دعوؤں میں سے ایک اور جھوٹ عیاں ہوگیا ہے۔

ایسا کیسے ممکن ہے کہ مشرکینِ مکہ کے جواب دینے کے باوجود اور نعوذ باللہ قرآن کے دعوے غلط ہونے کے باوجود بھی مکہ کے لوگ اور عرب کے لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس وقت مکہ والوں کے پاس سارے عالم سے لوگ حج کے سیزن میں آتے تھے اور قریش بڑا ہی عظمت والا قبیلہ تھا وہ تو اس کا خوب اشتہار کرتے اور اسلام کے خلاف اتنا عظیم موقعہ ہاتھ سے گوانے کا ان کے پاس کوئی مانع نہیں تھا۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ابولہب،ابو جھل وغیرہ وغیرہ اس سنہرے موقعہ کو ہاتھ سے جانے دیتے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ سفیانؓ اس عظیم فتح کے بعد اسلام کے آغوش میں آتے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مکہ والے جو مسلمانوں اور بیغمبرِ اسلام علیہ الصلوٰۃ و سلام کے قتل کے در پر تھے اور بدر،احد،احزاب جیسے عظیم معرکہ ہوئے اور کئی کفار جھنم رسید ہوئے۔ اس سے تو آسان ان کے لئے یہ بات تھی کہ وہ ان آیتوں یا سورتوں کی تشہیر کرتے جس کا تم (اے ملحدو!) دعویٰ کرتے ہو۔

ان جانی و مالی خسارے اٹھانے سے زیادہ اچھا موقعہ اور اسلام کو شکست دینے کا بہترین موقعہ اس سے زیادہ کیا ہوسکتا تھا کہ بیغمرِ اسلام ﷺ نے جو دعویٰ قرآن کریم کے ذریعہ پیش کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس جیسی دس سورتیں لے آو ، اور اس دعوے کے جواب کے بعد قریش اور مشرکین خاموش بیٹھ گئے اور حالت تو  یہ تھی کہ انہیں مسلمانوں پر دست ترس حاصل تھی اور مسلمانوں کو ایذاء رسانی بھی کرتے تھے ۔

الحمد للہ ہمارا دعویٰ ہے کہ آج تک قرآن کریم کے اس چیلینج کو کسی نےبھی پورا نہیں کیا ہے اور نہ کرسکے گا۔

اسلام اور آزاد خیالی مکمل

Standard

اسلام …………….. اور آزاد خیالی

ایک مباحثہ کے دوران میرے ایک رفیق نے کہا کہ تم آزاد خیال نہیں ہو……

میں: وہ کیسے؟

وہ:کیا تم ایک خدا کے وجود پر عقیدہ رکھتے ہو؟

میں: ہاں! یہ میرا ایمان ہے۔

وہ: اور پھر اس کے لئے نمازیں بھی پڑھتے ہو اور روزے بھی رکھتے ہو؟

میں: جی ہاں۔

وہ: تو پھر آپ آزاد خیال (Free Thinker) نہیں ہیں۔

میں: آخر یہ کیوں؟

وہ: آپ ایک نا معقول اور خرافات چیز پر عقیدہ رکھتے ہیں جس کا کوئی وجود نہیں ہے۔

میں: آپ اور آپ کے ہم خیال کس چیز پر عقیدہ رکھتے ہیں۔ آپ کے خیال میں اس کائنات کا اور زندگی کا خالق کون ہے؟

وہ: فطرت(Nature)

میں: آخر یہ فطرت کیا چیز؟

وہ: فطرت ایک لا محدود مخفی طاقت ہے۔ البتہ حواسِ خمسہ انسایہ کے لئے یہ ممکن ہے کہ اس کے مظاہر و آثار کا ادراک کرسکیں۔

آخر میں مَیں نے کہا کہ میں سمجھ گیا۔ آپ اپنے اس بیان کے ذریعہ ایک نامعلوم مخفی،قادر مطلق پر عقیدے سے ہٹا کر ایک نامعلوم قوت پر ایمان لانے کی دعوت دے رہے ہیں، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر میں اپنے خدا کا انکار کیوں کروں؟ اسی طرح کے ایک دوسرے نامعلوم القوۃ خدا بلکہ جھوٹے خدا کی خاطر۔ آپ مجھ سے میرا وہ خدا کیوں چھیننا چاہتے ہیں جس کی عبدیت میں مجھے امن، سکون اور سلامتی و ایمان جیسی لازوال نعمتیں ملتی ہیں۔ اور اس کے بدلے میں مجھے ایسا خدا دینا چاہتے ہیں جو نہ تو میری کسی بات کا جواب دے سکتا ہے اور نہ امن و سکون فراہم کرسکتا ہے۔

            مختصراً یہ ان تمام ترقی پسندوں کاعقیدہ ہے، جو آزادئ خیال کی گفتگو کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک ، آزادئ خیال، ایک خدا کے انکار کے مترادف ایک لفظ ہے لیکن کسی صورت میں بھی اسے آزادئ خیال نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ تو الحاد پرستی ہے۔ جس کی بیناد پر عمارت الحاد کی تعمیر کرتے ہوئے وہ لوگ اسلام پر الزام تراشی کرتے ہیں، حالانکہ انکارِ خدا کے معنی میں آزاد خیالی کو اسلام سختی سے منع کرتا ہے کیوں کہ اسلام الحاد کا دشمن ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آزاد خیالی اور الحاد دونوں ہم معنی لفظ ہیں اور ایک ہی چیز ہیں اور کیا الحاد درحقیقت آزاد خیالی کی پہلی شرط ہے۔ معاملہ اصلاً یوں ہے کہ مغرب کے آزاد خیالوں کی تاریخ سے غلط طور پر متاثر ہو کر یہ لوگ اس حقیقت کی طرف نظریں دوڑاتے ہیں جب کہ کچھ مقامی اسباب و وجوہ کی بنا پر الحاد کا پروپگنڈہ یورپ میں ہوا تھا لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ یہی تاریخ دینا میں ہر کہیں دہرائی جائے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مسیحیت کا وہ تصور جو یوروپ میں اہل کلیسا نے پیش کیا تھا اور اہلِ علم کے ساتھ جو انسانیت سوز برتاؤ انہوں نے کیا تھا مثلاً علم و سائنس کو دیس نکالا دینا، اہل علم اور سائنسدانوں کو طرح طرح کی سزائیں دینا، اوہام و خرافات،جھوٹ اور  لغو باتوں کو کلامِ الٰہی کہہ کر عوام کو اس پر عمل کی دعوت دینا وغیرہ نے یوروپ میں آزاد خیالوں کے لئے الحاد کا راستہ ہموار کیا تھا، ایسی صورت میں یوروپ کے دانشوروں کے لئے ضروری ہوگیا تھا کہ دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب نہایت صفائی سے کریں، یا تو فطری طور پر ایک خدا پر عقیدہ رکھیں یا سائنس کے علمی و عملی تجربات و مشاہدات پر ایمان لے آئیں۔

یوروپ کے دانشوروں نے فطرت پرستی کے نظریہ میں ایک طرح کی نجات محسوس کی تھی جس کے ذریعہ مذکورہ بالا فریب کے جال سے بچ سکتے تھے۔ اس لئے انہوں نے کلیسا سے صاف صاف کہہ دیا کہ “تم اپنے اس خدا کو لے جاؤ جس کے نام پر تم ہمیں غلام بنائے ہوئے ہو، گران بار ٹیکسوں کے بوجھ تلے ہمیں دبائے ہوئے ہو۔ تمہارے ان خداؤن پر ایمان لانے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم زاہد و درویش ہوجائیں گے، تارک الدنیا راہب ہوجائیں گے اس لئے ہم ایک نئے خدا پر ایمان لارہے ہیں، جس کے اندر معبودِ اول کی اکثر خوبیان موجود ہوں گی لیکن اس کے لئے کوئی گرجا(church) نہ ہوگا جو لوگوں کو غلام بنائے اور نہ ہی اس نئے دین کی طرف لوگوں پر اخلاقی، فکری اور مادی قسم کی کوئی پابندی ہوگی، جیسا کہ تمہارے دین میں ہے۔ بلکہ ہم اس کی وسعتوں میں ہر طرح کی قید سے آزاد ہوں گے۔

مذکورہ بالا بیان کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ اسلام میں اس طرح کی کوئی ایسی چیز نہیں پائی جاتی ہے جو الحاد کی طرف رہنمائی کرتی ہو۔ اور نہ ہی عقیدہ کو سمجھنے کے سلسلہ میں کوئی مشکل چیز در پیش ہے جو ذہن کو پریشان کرے۔ مثلاً خدا ایک ہے وہی ساری کائنات کا خالق ہے، اور پھر ایک دین اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، وہ خدا اکیلاہے، اس کا کوئی ساجھی و شریک نہیں ہے، اس کے فیصلوں پر کوئی مواخذہ کرنے والا نہیں ہے۔” یہ اتنا واضح اور سادہ مفہوم ہے کہ کوئی بھی شخص حتیٰ کہ نیچری اور ملحد بھی بڑی مشکل سے اس کا انکار تو درکنار اس میں شبہ بھی کرسکتا ہے۔

اسلام میں اس طرح کے مذہبی لوگ نہیں ہیں جیسے یوروپ میں پوپ و پادری ہوتے ہیں، بلکہ یہاں مذہب ساری نوع انسانی کی مشترکہ میراث ہے۔ اپنی فطری، ذہنی اور روحانی صلاحیتوں اور ضرورت کے مطابق ہر شخص اس چشمہ سے سیراب ہو سکتا ہے۔ اسلام میں سب مسلمان برابر ہیں۔ اس میں زندگی کی بنیادی ضرورتوں اور معیار کارکردگی کی روشنی میں ہر شخص کے درجے متعین ہیں۔ا لبتہ اللہ کی نظروں میں سب سے معزز و محترم وہ لوگ ہیں جو متقی و پرہیز گار ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انجینئر ہے یا مدرس، کوئی فنکار ہے یا کارخانہ کا مزدور، کیوں کہ مذہب صنعتوں اور پیشوں کی طرح کوئی پیشہ نہیں ہے کہ لوگ اپنے پیشوں کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام میں پیشہ ور پادری نہیں ہوتے ہیں۔ چنانچہ عبادات پنجگانہ وغیرہ کی کاروائیاں پیشہ ور مذہبی شخصیتوں کی مداخلت کے بغیر بحسن و خوبی انجام پذیر ہوتی ہیں۔

البتہ یہ ضروری ہے کہ کچھ علوم فقہیہ اور مسائل شرعیہ کے ماہر ہوں کہ یہی علوم امور عامہ کی بنیاد ہیں تاکہ معاملات کے فیصلوں میں آسانی ہو تاہم ان اسلامی  علوم کے ماہرین اور فقہاء کا مرتبہ دنیا کے دوسرے ملکوں ہی کی طرح ہوگا۔ انہیں اپنے علمی اعزاز کی بنا پر عوام پر فوقیت اور برتری حاصل نہ ہوگی اور نہ ہی درجہ واری اعتبار سے کوئی امتیاز حاصل ہوگا۔ بلکہ ان کی حیثیت صرف ایک قانونی مشیر کی ہوگی (جیسا کہ سلیمان بن عبد الملک کے دورِ حکومت میں عمر بن عبد العزیزؒ خلیفہ مذکور کے مشیر کی حیثیت سے کام کرتے تھے) اور اگر کچھ لوگ ایسے ہوں بھی جو اپنے آپ کو علامہ دہر اور مفتی اعظم کہتے ہوں، تو اپنے منھ میاں مٹھو  بناکریں۔ بہر حال انہیں عوام پر کسی قسم کا کوئی غلبہ حاصل نہ ہوگا۔ صرف قانونی ہی دائرہ تک ان کی سرگرمیاں محدود ہوں گی امور عامہ میں انہیں دخل اندازی کا کچھ بھی اختیار نہ ہوگا۔ مثلاً

“جامعہ ازہر مصر” ایک دینی درسگاہ ہے لیکن اسے قطعی یہ اختیار نہیں کہ اہل علم و فضل کے جلانے یا انہیں آزمائشوں میں مبتلا کئے جانے کا کوئی حکم دے ہاں اسے صرف اتنی گنجائش ہے کہ کسی شخص کے اپنے ذاتی ںظریہ مذہب اور فہم دین پر تنقید کرسکتی ہے یعنی تفہیم و تنقیح میں جامعہ ازہر آزاد ہے یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے علمائے ازہر کے مذہبی خیالات پر تنقید و تبصرہ کرنے میں عام لوگ بھی آزاد ہیں کیوں کہ اسلام کسی ایک شخص یا جماعت کی جاگیر نہیں ہے اس لئے اپنی گزر اوقات کے پیشوں کا لحاظ کئے بغیر وہ سبھی لوگ مذہبیات کے ماہر سمجھے جائیں گے جو مذہب کا گہرا مطالعہ رکھتے ہیں اور اپنی زندگیوں میں اس کا عملی مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔

اس موقع پر ایک بات کی وضاحت کردینا بہت ضروری ہے کہ جب حکومت اسلامیہ کا قیام عمل میں آئے گا تو یہ ضروری نہیں ہوگا کہ علماء ہی گورنر،منسٹر اور شعبوں کے صدر ہوں۔ اگر کوئی تبدیلی ہوگی بھی تو صرف یہ کہ نظام حکومت کی بنیاد شریعت اسلامیہ پر رکھی جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ خدا کی زمین پر خدا کا قانون چلے گا، ورنہ بقیہ امور بدستور ہوں گے وہ اس طور پر کہ شعبہ انجینئرنگ کا صدر انجینئر ہوگا، اسپتالوں کے ذمہ دار ڈاکٹر ہوں گے اور معاشی امور کی رہبری ماہرین معاشیات ہی کے ذمہ ہوگی۔ اس طرح تمام شعبہ جات زندگی کے اندر اسلامی روح کار فرما ہوگی۔

تاریخ شاہد ہے کہ نہ تو اسلامی عقائد اور نہ ہی اسلامی حکومت نے اہلِ علم اور سائنسدانوں کے تجربات و مشاہدات کے راستہ میں کبھی بھی کسی قسم کی رکاوٹ پیدا کی ہے۔ اسلامی عظمت و اقتدار کے دور میں ہمارے کانوں نے ایسی کوئی خبر نہیں سنی کہ تجربہ، کسی نئی تحقیق و جستجو، کسی نئے نظریہ و خیال پر کوئی سائنسداں آگ میں جلایا گیا ہو۔ حقیقی اور سچی سائنس ایک مسلمان کے اس عقیدہ سے متصادم نہیں ہوتی ہے کہ اللہ ہی وہ ہے جو ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے۔ اسلام تو خود ہی بنی نوع انسان کو دعوت دیتا ہے کہ زمین و آسمان کا مشاہدہ و مطالعہ کریں ، ان کی پیدائش پر غور و فکر کریں تاکہ اس کے ذریعہ خدا کی معرفت حاصل ہوسکے۔ صحیح اور سچی سائنس اور تلاش و جستجو کے راستے یوروپ کے بہت ملحد سائنسدانوں کو خدا  تک رسائی نصیب ہوئی ہے۔

اسلام میں اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے جو عوام کو الحاد اور بے دینی کی ترغیب دیتی ہو اور یہ جو معدودے چند ملحد اور منکر مشرق ہی میں پائے جاتے ہیں، وہ اپنے استعمار پسند آقاؤں کی خواہشوں کے اندھے غلام ہیں، ان مذاہب بیزاروں کی خواہش ہے کہ انہیں عقائد و عبادات پر حملہ کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی جائے تاکہ وہ لوگوں کو ترک مذہب پر آمادہ کرسکیں لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ آکر وہ ایسا کیوں چاہتے ہیں؟

معاملہ درحقیقت یوں ہے کہ مغربی ممالک میں لوگ اپنے ذہنوں کو اوہام و خرافات سے آزاد کرنے اور عوام کو ظلم و تشدد سے نجات دلانے کے نام پر مذہب پر حملہ کرنے لگتے ہیں۔ مگر جب اسلامی شریعت انہیں وہ تمام آزادیاں دے رہی ہے جس کی انہیں ضرورت ہے تو پھر آخر کیوں مذہب پر رکیک حملے کرتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نام نہاد آزاد خیال (Liberals) آزاد خیالی میں ذرا بھی دلچسپی نہیں لیتے بلکہ اس سے زیادہ تو وہ اخلاقی گرواٹ،بے حیائی پھیلانے اور وحشیانہ جنسے بے راہ روی عام کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں آزاد خیالی کا نعرہ دراصل ایک نقاب ہے جس میں وہ اپنی جنسی اور دیگر پست خواہشات کو ڈھکے ہوتے ہیں۔ بقول علامہ اقبالؒ

براہیمی    نظر     پیدا      مگر     مشکل     سے     ہوتی     ہے

ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنالیتی ہے تصویریں

یہ نعرہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ مذہب و اخلاق کے خلاف ان کی بیہودہ جنگ کا جھنڈا ہے۔ وہ لوگ اسلام کے مخالف اس لئے نہیں ہیں کہ اسلام آزاد خیالی کا دشمن ہے بلکہ وہ اس لئے اس کے منکر ہیں کہ اسلام سطحی اور گندی خواہشات کے غلبہ و تسلط سے انسانیت کو نجات دینے کے لئے ان سے نبرد آزما ہے۔

آزاد خیالی کے علمبردار، اسلام پر الزام لگاتے ہیں کہ اسلام کا نظامِ حکومت خود مختارانہ ہے، کیوں کہ یہاں حکومت ایک وسیع اقتدار کی مالک ہوتی ہے اور یہ کتنی بری بات ہے کہ مذہب کے نام پر لامحدود طاقت و اختیارات سے کوئی جماعت فائدہ اٹھائے۔ ظاہر ہے کہ مذہب ایک مقدس چیز ہے۔ لوگوں کے دلوں پر اس کا غلبہ ہے۔ لوگوں کے لئے اس میں بڑی کشش ہے، اس لئے آنکھیں بند کر کے اس نظام حکومت کے ظلم و ستم کو لوگ برداشت کر لیتے ہیں۔ انہیں لوگوں کا خیلا ہے کہ یہ وسیع و لامحدود اختیارات خود مختاری کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ایسی صورت میں عوام ایک غلام کی طرح آزاد خیالی سے محروم ہو جاتے ہیں، ہمیشہ ہمیش کے لئے آزاد خیالی کا گلا گھٹ جاتا ہے۔ پھر کوئی شخص حکمراں طبقے کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت نہیں کرتا ہے اور اگر کبھی ایسا کوئی کرلیتا ہے تو اس پر خدا اور مذہب کے خلاف بغاوت کا الزام لگتا ہے۔

مذکورہ بالا غلط اور جھوٹے الزامات کی نہایت مدلل اور خوبصور تردید خود قرآن حکیم اور اقوالِ صحابہؓ میں موجود ہے۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:

وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ

ترجمہ: وہ لوگ اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں۔(سورہ ۴۲ آیت ۳۸)

ایک دوسری آیت میں وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ  (سورہ ۴ آیت ۵۸)

ترجمہ: اور جو لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔

خلیفہ اول ابو بکر صدیقؓ فرماتے ہیں اگر میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کرنے لگوں تو تمہارے اوپر میری کوئی اطاعت نہیں ہے ۔ اسی طرح فاروقِ اعظمؓ فرماتے ہیں: اگر میرے اندر تم کوئی کجی دیکھو تو اسے درست کردو، اسی موقعہ پر ایک مسلمان نے کھڑے ہو کر فوراً کہا “بخدا اگر ہمیں ذرا بھی کوئی کجی محسوس ہوئی تو ہم اسے تلوار کی دھار سے درست کردیں گے۔”

یہ صحیح ہے کہ مذہب کے نام پر ایک عرصہ تک دنیا میں ظلم و ستم کی حکمرانی رہی اور یہ بھی سچ ہے کہ اب تک بعض ملکوں میں مذہب ہی کے نام پر ظلم وستم کا دور دورہ ہے۔ لیکن سوال اٹھتا ہے کہ کیا مذہب ہی تنہا وہ نقاب ہے جسے ظالم حکمراں استعمال کرتے رہے ہیں۔ کیا ہٹلر نے اسی مذہب کے نام پر حکومت کی تھی؟ یا اسٹالن جس کے بارے میں روسی صحافیوں اور دانشوروں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ وہ بڑا سخت گیر،ظالم، مطلق العنان تھا، اس نے روس پر ایک پولیس کی طرح حکومت کی ہے اس نے اپنی حکومت و اقتدار کی خاطر مذہب ہی کا نعرہ بلند کیا تھا؟اور کرتہے ہیں، یہ تو وہ لوگ ہیں جو مذہب کے نام پر چراغ پا ہوجاتے ہیں اور مذہب کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اس لئے اب یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ بیسویں صدی جس نے مذہب سے نجات پانے کے لئے کیا کیا نہ جتن کئے اور اس کے لئے کیا کیا قربانیاں نہ دیں، مگر اسے وحشیانہ مطلق العنانی کا وہ دور دیکھنا پڑا  جس میں مذہب سے زیادہ پر کشش اور مقدس نام کے سہارے بنی نوع انسان کو زبردست فریب دیا گیا۔

کوئی بھی شخص مطلق العنانی (Dictatorship) کی تعریف نہیں کرسکتا اور نہ ہی کوئی آزاد ذہن و دماغ اور بیدار قلب و ضمیر والا انسان اسے تسلیم ہی کرسکتا ہے۔ اسی طرح فطرت و طبیعت کی سلامت روی کا تقاضا تو یہ ہے کہ خواہشات نفسانی کی اتباع کئے بغیر حق خالص کا اقرار کرلیا جائے۔ لیکن اس کے برعکس دیکھنے میں یہ آیا کہ ہر خوبصورت اور محترم اصول (principle) کو غلط طور پر استعمال کیا گیا ہےا ور اپنے ذاتی اغراض و مفاد کو چھپانے کے لئے اسے بہترین پردہ بنایا گیا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انقلاب فرانس (French Revolution) کے نشہ کے دوران اسی آزاد خیالی (Liberalism) کے نام پر انتہائی بد ترین اور خبیث قسم کے جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ تو کیا اس کی روشنی میں ہم جذبۂ استقلال و حریت کو لغو قرار دے دیں؟ اور اسی طرح سینکڑوں بے قصور اور معصوم انسانوں کو دستور کے نام پر قید و بند کی صوعبتیں جھیلنا پڑیں،سزائیں دی گئیں، یہاں تک کہ رسم دار ورسن بھی پوری کی گئی، تو کیا اس وجہ سے ہم دستور کو ایک قلم منسوخ کردیں ، یا کچھ ملکوں میں مذہب کے نام پر اب بھی ظلم وستم کی حکمرانی ہے۔ کیا یہ مناسب بات کوگی کہ اس سے نجات پانے کے لئے ہم مذہب ہی سے محروم ہوجائیں؟ ہاں ہم ایسے مذہب کو ضرور دیس نکالا دیں گے اور اسے ممنوع قرار دیں گے جو اپنے نصاب تعلیم، نظریاتِ زندگی، نیز بذات خود ظلم و تشدد اور ناانصافی کی تبلیغ و اشاعت کرتا ہوگا۔ لیکن کیا یہ مثال اسلام پر بھی صادق آتی ہے؟ جو کہ عدل و انصاف کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ اور خاص بات تو یہ ہے کہ اسلام کا عدل و مساوات صرف مسلمانوں ہی کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ نازک سے نازک حالات میں بھی غیر مسلموں،دشمنوں،جنگی حملہ آوروں کے لئے بھی عام ہے۔

آئیے، ذرا سوچیں کہ آخر اس کا علاج کیا ہوسکتا ہے؟ تو حالات و مشاہدات سے واضح ہوتا ہے کہ ظلم و ستم،سرکشی و بغاوت سے نپٹنے کے لئے صرف ایک طریقہ ہے، وہ یہ کہ اہل ایمان کا ہر اول دستہ تیار کیا جائے جو اللہ وحدہ لا شریک لہ پر پختہ عقیدہ رکھتا ہو اور اس آزادی کا احترام کرتا ہو جس کی دعوت مذہب نے دی ہے اور جس آزادی کی حفاظت کی ذمہ داری خود مذہب کے اوپر ہے۔ یہ ایمانی ہر اول دستہ ظالم حکمراں کو کبھی بھی نا انصافی کی اجازت نہیں دے گا۔ بلکہ جائز اختیرات کے حدود میں رہ کر انہیں کام کرنے کی ترغیب دے گا۔ میرا خیال ہے کہ عدل و انصاف کا استحکام و قیام نیز جبر و تشدد کا مقابلہ کرنے کے لئے اسلام سے بہتر کبھی بھی کسی نظام حکومت کی تشکیل اس سر زمین پر نہیں ہوئی۔ اسلام نے عوام پر ذمہ داری ڈالی ہے کہ اگر حکمراں منصف نہ ہوں تو انہیں صحیح راستہ پر لگائیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے

من رأى منكم منكرا فليغيره (صحیح مسلم)

یعنی تم میں کا کوئی شخص اگر برائی دیکھے تو اسے دور کرے۔ دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ

“یعنی عدل انصاف کا ایک کلمہ (بات) جو ظالم بادشاہ کے سامنے کہا گیا ہو وہ جہاد سے بڑھ کر ہے۔(ابو داود و ترمذی)

بہر حال آخر میں ہم اپنے ترقی پسند اور آزاد خیال (progressive & Free Thinker) بھائیوں سے صرف ایک بات کہیں گے وہ یہ کہ آزادئ خیال کا صحیح راستہ اور ذریعہ مذہب بیزاری نہیں ہے بلکہ اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو ایسی مضطرب اور انقلاب انگیز روح سے آشنا کرایا جائے جو ظلم سے نفرت کرتی ہو اور ظالم کا مقابلہ کرسکتی ہو دراصل یہی جذبۂ ایمانی اور روح مسلمانی ہے جو بندۂ مؤمن کو مطلوب ہے۔

اے خدا سینۂ مسلم کو عطا ہو وہ گداز

تھا  کبھی  حمزہؓ  و  حیدرؓ  کا  جو  سرمایۂ  ناز

پھر فضا میں تیری تکبیر کی گونجے آواز

پھر تو اس قوم کو دے گرمی روح آغاز

نقش  اسلام  ابھر  آئے  جلی  ہوجائے

ہر مسلمان  حسینؓ   ابن  علیؓ  ہو جائے

(جوشؔ)

کیا مذہب ہی تنہا وہ نقاب ہے جسے ظالم حکمراں استعمال کرتے رہے ہیں؟؟؟

Standard

اسلام اور آزاد خیالی حصہ ۶

یہ صحیح ہے کہ مذہب کے نام پر ایک عرصہ تک دنیا میں ظلم و ستم کی حکمرانی رہی اور یہ بھی سچ ہے کہ اب تک بعض ملکوں میں مذہب ہی کے نام پر ظلم وستم کا دور دورہ ہے۔ لیکن سوال اٹھتا ہے کہ کیا مذہب ہی تنہا وہ نقاب ہے جسے ظالم حکمراں استعمال کرتے رہے ہیں۔ کیا ہٹلر نے اسی مذہب کے نام پر حکومت کی تھی؟ یا اسٹالن جس کے بارے میں روسی صحافیوں اور دانشوروں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ وہ بڑا سخت گیر،ظالم، مطلق العنان تھا، اس نے روس پر ایک پولیس کی طرح حکومت کی ہے اس نے اپنی حکومت و اقتدار کی خاطر مذہب ہی کا نعرہ بلند کیا تھا؟اور کرتہے ہیں، یہ تو وہ لوگ ہیں جو مذہب کے نام پر چراغ پا ہوجاتے ہیں اور مذہب کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اس لئے اب یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ بیسویں صدی جس نے مذہب سے نجات پانے کے لئے کیا کیا نہ جتن کئے اور اس کے لئے کیا کیا قربانیاں نہ دیں، مگر اسے وحشیانہ مطلق العنانی کا وہ دور دیکھنا پڑا  جس میں مذہب سے زیادہ پر کشش اور مقدس نام کے سہارے بنی نوع انسان کو زبردست فریب دیا گیا۔

کوئی بھی شخص مطلق العنانی (Dictatorship) کی تعریف نہیں کرسکتا اور نہ ہی کوئی آزاد ذہن و دماغ اور بیدار قلب و ضمیر والا انسان اسے تسلیم ہی کرسکتا ہے۔ اسی طرح فطرت و طبیعت کی سلامت روی کا تقاضا تو یہ ہے کہ خواہشات نفسانی کی اتباع کئے بغیر حق خالص کا اقرار کرلیا جائے۔ لیکن اس کے برعکس دیکھنے میں یہ آیا کہ ہر خوبصورت اور محترم اصول (principle) کو غلط طور پر استعمال کیا گیا ہےا ور اپنے ذاتی اغراض و مفاد کو چھپانے کے لئے اسے بہترین پردہ بنایا گیا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انقلاب فرانس (French Revolution) کے نشہ کے دوران اسی آزاد خیالی (Liberalism) کے نام پر انتہائی بد ترین اور خبیث قسم کے جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ تو کیا اس کی روشنی میں ہم جذبۂ استقلال و حریت کو لغو قرار دے دیں؟ اور اسی طرح سینکڑوں بے قصور اور معصوم انسانوں کو دستور کے نام پر قید و بند کی صوعبتیں جھیلنا پڑیں،سزائیں دی گئیں، یہاں تک کہ رسم دار ورسن بھی پوری کی گئی، تو کیا اس وجہ سے ہم دستور کو ایک قلم منسوخ کردیں ، یا کچھ ملکوں میں مذہب کے نام پر اب بھی ظلم وستم کی حکمرانی ہے۔ کیا یہ مناسب بات کوگی کہ اس سے نجات پانے کے لئے ہم مذہب ہی سے محروم ہوجائیں؟ ہاں ہم ایسے مذہب کو ضرور دیس نکالا دیں گے اور اسے ممنوع قرار دیں گے جو اپنے نصاب تعلیم، نظریاتِ زندگی، نیز بذات خود ظلم و تشدد اور ناانصافی کی تبلیغ و اشاعت کرتا ہوگا۔ لیکن کیا یہ مثال اسلام پر بھی صادق آتی ہے؟ جو کہ عدل و انصاف کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ اور خاص بات تو یہ ہے کہ اسلام کا عدل و مساوات صرف مسلمانوں ہی کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ نازک سے نازک حالات میں بھی غیر مسلموں،دشمنوں،جنگی حملہ آوروں کے لئے بھی عام ہے۔

آئیے، ذرا سوچیں کہ آخر اس کا علاج کیا ہوسکتا ہے؟ تو حالات و مشاہدات سے واضح ہوتا ہے کہ ظلم و ستم،سرکشی و بغاوت سے نپٹنے کے لئے صرف ایک طریقہ ہے، وہ یہ کہ اہل ایمان کا ہر اول دستہ تیار کیا جائے جو اللہ وحدہ لا شریک لہ پر پختہ عقیدہ رکھتا ہو اور اس آزادی کا احترام کرتا ہو جس کی دعوت مذہب نے دی ہے اور جس آزادی کی حفاظت کی ذمہ داری خود مذہب کے اوپر ہے۔ یہ ایمانی ہر اول دستہ ظالم حکمراں کو کبھی بھی نا انصافی کی اجازت نہیں دے گا۔ بلکہ جائز اختیرات کے حدود میں رہ کر انہیں کام کرنے کی ترغیب دے گا۔ میرا خیال ہے کہ عدل و انصاف کا استحکام و قیام نیز جبر و تشدد کا مقابلہ کرنے کے لئے اسلام سے بہتر کبھی بھی کسی نظام حکومت کی تشکیل اس سر زمین پر نہیں ہوئی۔ اسلام نے عوام پر ذمہ داری ڈالی ہے کہ اگر حکمراں منصف نہ ہوں تو انہیں صحیح راستہ پر لگائیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے

من رأى منكم منكرا فليغيره (صحیح مسلم)

یعنی تم میں کا کوئی شخص اگر برائی دیکھے تو اسے دور کرے۔ دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ

“یعنی عدل انصاف کا ایک کلمہ (بات) جو ظالم بادشاہ کے سامنے کہا گیا ہو وہ جہاد سے بڑھ کر ہے۔(ابو داود و ترمذی)

بہر حال آخر میں ہم اپنے ترقی پسند اور آزاد خیال (progressive & Free Thinker) بھائیوں سے صرف ایک بات کہیں گے وہ یہ کہ آزادئ خیال کا صحیح راستہ اور ذریعہ مذہب بیزاری نہیں ہے بلکہ اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو ایسی مضطرب اور انقلاب انگیز روح سے آشنا کرایا جائے جو ظلم سے نفرت کرتی ہو اور ظالم کا مقابلہ کرسکتی ہو دراصل یہی جذبۂ ایمانی اور روح مسلمانی ہے جو بندۂ مؤمن کو مطلوب ہے۔

اے خدا سینۂ مسلم کو عطا ہو وہ گداز

تھا  کبھی  حمزہؓ  و  حیدرؓ  کا  جو  سرمایۂ  ناز

پھر فضا میں تیری تکبیر کی گونجے آواز

پھر تو اس قوم کو دے گرمی روح آغاز

نقش  اسلام  ابھر  آئے  جلی  ہوجائے

ہر مسلمان  حسینؓ   ابن  علیؓ  ہو جائے

(جوشؔ)

اسلامی حکومت کس طرح ہوتی ہے

Standard

اسلام اور آزاد خیالی حصہ۵

اسلامی حکومت کس طرح ہوتی ہے

آزاد خیالی کے علمبردار، اسلام پر الزام لگاتے ہیں کہ اسلام کا نظامِ حکومت خود مختارانہ ہے، کیوں کہ یہاں حکومت ایک وسیع اقتدار کی مالک ہوتی ہے اور یہ کتنی بری بات ہے کہ مذہب کے نام پر لامحدود طاقت و اختیارات سے کوئی جماعت فائدہ اٹھائے۔ ظاہر ہے کہ مذہب ایک مقدس چیز ہے۔ لوگوں کے دلوں پر اس کا غلبہ ہے۔ لوگوں کے لئے اس میں بڑی کشش ہے، اس لئے آنکھیں بند کر کے اس نظام حکومت کے ظلم و ستم کو لوگ برداشت کر لیتے ہیں۔ انہیں لوگوں کا خیلا ہے کہ یہ وسیع و لامحدود اختیارات خود مختاری کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ایسی صورت میں عوام ایک غلام کی طرح آزاد خیالی سے محروم ہو جاتے ہیں، ہمیشہ ہمیش کے لئے آزاد خیالی کا گلا گھٹ جاتا ہے۔ پھر کوئی شخص حکمراں طبقے کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت نہیں کرتا ہے اور اگر کبھی ایسا کوئی کرلیتا ہے تو اس پر خدا اور مذہب کے خلاف بغاوت کا الزام لگتا ہے۔

مذکورہ بالا غلط اور جھوٹے الزامات کی نہایت مدلل اور خوبصور تردید خود قرآن حکیم اور اقوالِ صحابہؓ میں موجود ہے۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:

وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ

ترجمہ: وہ لوگ اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں۔(سورہ ۴۲ آیت ۳۸)

ایک دوسری آیت میں وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ  (سورہ ۴ آیت ۵۸)

ترجمہ: اور جو لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔

خلیفہ اول ابو بکر صدیقؓ فرماتے ہیں اگر میں اللہ اور اس کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرنے لگوں تو تمہارے اوپر میری کوئی اطاعت نہیں ہے ۔ اسی طرح فاروقِ اعظمؓ فرماتے ہیں: اگر میرے اندر تم کوئی کجی دیکھو تو اسے درست کردو، اسی موقعہ پر ایک مسلمان نے کھڑے ہو کر فوراً کہا “بخدا اگر ہمیں ذرا بھی کوئی کجی محسوس ہوئی تو ہم اسے تلوار کی دھار سے درست کردیں گے۔”جاری