قرآن کا چیلینج قیامت تک—- ملحدین کی نقاب کشائی

Standard

بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم، قرآن ِ کریم کا چیلینج رہتی دینا تک پر ملحدین نے آیتوں کو اپنے سیاق و سباق سے نکال کر جواب دینے کی ناکام کوشش کی ہے کہ قرآن کے اس چیلینج کے اس جیسی ایک سورت بھی لاکر دکھادو کا جواب مشرکینِ مکہ کے شعراء نے دیا ہے۔

قرآن کریم ہی کے انداز میں ہمارا ان ملحدوں سے سوال ہے

 هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

اپنی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو،

یہ بات ثابت کردو کہ واقعی مشرکینِ مکہ نے جواب دیا ہے اور اس قرآن عظیم جیسی کوئی سورت ان لوگوں نے بھی لکھی تھی۔

اٹکل پچوؤں سے تمھاری بات سچ ہونے والی نہیں ہے۔ تمھارے جھوٹے دعوؤں میں سے ایک اور جھوٹ عیاں ہوگیا ہے۔

ایسا کیسے ممکن ہے کہ مشرکینِ مکہ کے جواب دینے کے باوجود اور نعوذ باللہ قرآن کے دعوے غلط ہونے کے باوجود بھی مکہ کے لوگ اور عرب کے لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس وقت مکہ والوں کے پاس سارے عالم سے لوگ حج کے سیزن میں آتے تھے اور قریش بڑا ہی عظمت والا قبیلہ تھا وہ تو اس کا خوب اشتہار کرتے اور اسلام کے خلاف اتنا عظیم موقعہ ہاتھ سے گوانے کا ان کے پاس کوئی مانع نہیں تھا۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ابولہب،ابو جھل وغیرہ وغیرہ اس سنہرے موقعہ کو ہاتھ سے جانے دیتے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ سفیانؓ اس عظیم فتح کے بعد اسلام کے آغوش میں آتے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مکہ والے جو مسلمانوں اور بیغمبرِ اسلام علیہ الصلوٰۃ و سلام کے قتل کے در پر تھے اور بدر،احد،احزاب جیسے عظیم معرکہ ہوئے اور کئی کفار جھنم رسید ہوئے۔ اس سے تو آسان ان کے لئے یہ بات تھی کہ وہ ان آیتوں یا سورتوں کی تشہیر کرتے جس کا تم (اے ملحدو!) دعویٰ کرتے ہو۔

ان جانی و مالی خسارے اٹھانے سے زیادہ اچھا موقعہ اور اسلام کو شکست دینے کا بہترین موقعہ اس سے زیادہ کیا ہوسکتا تھا کہ بیغمرِ اسلام ﷺ نے جو دعویٰ قرآن کریم کے ذریعہ پیش کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس جیسی دس سورتیں لے آو ، اور اس دعوے کے جواب کے بعد قریش اور مشرکین خاموش بیٹھ گئے اور حالت تو  یہ تھی کہ انہیں مسلمانوں پر دست ترس حاصل تھی اور مسلمانوں کو ایذاء رسانی بھی کرتے تھے ۔

الحمد للہ ہمارا دعویٰ ہے کہ آج تک قرآن کریم کے اس چیلینج کو کسی نےبھی پورا نہیں کیا ہے اور نہ کرسکے گا۔

قرآن کی ترتیب پر اعتراض کا مختصر جواب

Standard

ملحد کا اعتراض: قرآن کی پہلی آیت نزول کے اعتبار سے اقراء بسم ربک ہے لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کے پہلی سورت سورہ فاتحہ ہے۔

جواب:-

قرآن کی پہلی وحی تو وہی ہے جس کو آپ نے اپنے سوال میں لکھا ہے۔ یہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہر رمضان جبریل علیہ لسلام تشریف لاتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کا دور فرمایا کرتے تھے اور وصال سے پہلے والے رمضان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲ دور کئے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی آیت نازل ہوتی تو ارشاد فرماتے تھے کہ اس کو فلاں سورہ میں فلاں جگہ لکھو یا فلاں آیت کے بعد لکھو۔

ان شاء اللہ اس کا تفصیلی جواب عنقریب دیا جائے گا۔

تخلیق کائینات کے متعلق سوال اور اس کا جواب

Standard

سوال: الله تعالیٰ قرآن مجید فرقان حمید کی مختلف آیتوں میں ہمیں بتاتے ہیں کہ انہوں نے زمین اور آسمانوں کو کل کتنے دنوں میں تکمیل فرمایا. الله پاک قرآن کریم کی آیات ٧:٥٤، ١٠:٣ اور ١١:٧ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ انہوں نے زمین اور آسمانوں کو کل چھ دنوں میں تکمیل فرمایا. لیکن پھر ٤١:٩، ٤١:١٠ اور ٤١:١٢ میں دو، چار اور دو دن بتاے جن کی جمع کل آٹھ دن بنتی ہے.

اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سارا کام چھ دنوں میں ہی مکمل ہوا تھا یا آٹھ دنوں میں

جواب:-اس کا جواب یہ ہے کہ

اربعہ ایام جداگانہ نہیں جس سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے بلکہ وہ پہلے ٢ روز مل کر کہ جن میں زمین کا پیدا ہونا بیان ہوا ہے اور محاورہ عرب میں پہلے کام کی مدت کو اس کے بعد کے دوسرے کام کی مدت میں جو اسی جنس کی شامل کر کے مجموعی مدت بیان کردیا کرتے ہیں . جیسا کہ اس مثال میں سرت من البصرة الی بغداد و سرت الی الکوفة فی خمسةعشر یوماً کہ میں نے بصرہ سے بغداد تک کی منزل کو دس روز میں تمام کیا اور کوفہ تک پندرہ دن میں تمام کیا، چونکہ متصل ایک ہی قسم کا سفر تھا اس لیے مجموعی مدت لگائی گئی زبان نہ جاننے سے ایسے شبہات پیدا ہوتے ہیں

. و الله اعلم بالصواب

کیا الله عرش پر مقیم ہے؟؟؟

Standard

اشکال و جوابات

ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ

سوال: قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ حق جل مجدہ عرش پر مقیم ہے اور آپ لوگوں کو معلوم ہوگا کہ قائم وہ شخص ہوتا ہے جو ذوجسم ہو اور ذی روح  ہو. نتیجتاً محدود ہونا لازم آتا ہے اور جو جسم مادہ سے مرکب ہوتا ہے تو وہ مادہ محدث و تجدد کا مقتازی  ہے اور یہی دونوں تعدد الہ کو مستلزم ہے.

جواب: جناب آپ نے استویٰ کو تو سمجھا ہی نہیں استویٰ سے وہ مراد قطعاً نہیں جو آپ نے سمجھا ہے استویٰ کے معنی متمکن ہونا نہیں جیسا کہ آپ نے ترجمہ کیا ہے کہ الله تعالى عرش پر مقیم ہے حق جل مجدہ کا یہ فرمان کہ ثم استویٰ علی العرش کا مفہوم حقیقی یہی ہے کہ حق تعالى عرش پر محیط ہے اب یہ احاطت غالبیت پر دال ہے اب یہ بات واضح ہوگئی کہ الله تعالى عرش پر مقیم نہیں بلکہ حاوی علی العرش ہے ذات الہی کا عرش پر حاوی ہونا عدم جسم و محدود لازم آتا ہے اور جب آپ کی ذات جسم و جہات سے اور تحدید سے بالاتر ہوگئی تو تحدث و تجدد اس پر لازم نہیں آتا چنانچہ اس صحت معنی کے ساتھ اپ کے سوال کی دیوار منہدم ہو جاتی ہے

 

حروف مقطعات پر اشکال اور اس کا جواب

Standard


سوال
:الم، يس، طه، وغیرہ ذالک یہ ایسے حروف ہیں جن کے معنی و مفاہیم کو کوئی بھی شخص نہیں جانتا ہے اور کسی کام کا نہ جاننا اور پھر بھی اس کام کا کرنا لغو اور بیکار ہے لہٰذا مفسرین کرام کا قول ہے کہ الم ،یس، طہ وغیرہ قرآن کا جز ہے اور اس کی تلاوت کرنی چاہئے سراسر بندوں کو لغو باتوں میں مشغول کرنا ہے لہٰذا قرآن کے چند جز کا لغو ہونا پورے قرآن کا لغو ہونا لازم آتا ہے اس اس معلوم ہوا کہ پورا قرآن لغو ہے (نعوذ باللہ)

جواب: کلام لغو اس وقت ہوتا ہے جب خود متکلم اپنے کلام کے مرادات سے ناواقف ہو اور یہ کلام کلام الہی ہے جس کا متکلم خود الله کی ذات ہے خود آپ معترف ہیں کہ اس کے مرادات کو الله جانتا ہے جو خود ابطال لغو ہے ، رہی بات بندے کی تو بندہ بغیر سمجھے اس کی تلاوت کرتا ہے تو بندے کے اس فعل کو عبث قرار دیا جائے اس میں الله نے اپنے بندوں کا امتحان لیا ہے کہ آیا میرے بندے صرف میری باتوں پر ایمان رکھتا ہے جو اس کے عقل میں آتی ہے اور جو انکی سمجھ سے بالاتر ہو اس پر ایمان رکھتا ہے یا نہیں الغرض اس میں ایمان بالغیب کی دعوت ہے اور آمنا بما انزل الینا کی ترغیب ہے.