افضلیتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم

Standard
عیسائی پادری کی طرف سے چند سوالات جس سے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ثابت کرنے کی کوشش کا اجمالاً جوابآپ کا مکتوب موصول ہوا جو چند سوالات پر مشتمل ہے جن کا حاصل وہ چند وجوہ ہیں جن کی بنا پر بعض عیسائی مبلغوں نے حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام کی فضیلت خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ پر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور اس طرح آنحضرت ﷺ کی اس فضیلت و برتری پر جو حق تعالیٰ نے آپ کو تمام انبیاء پر عنایت فرمائی ہے اعتراضات کئے ہیں ان تمام سوالات یا اعتراضات کے جواب سے قبل ایک بات تمہید کے طور پر سمجھ لینا ضروری ہے وہ یہ کہ مذکورہ سوالات کے ضمن میں جو تمام فضائل مسیح بن مریم علیہ السلام کے ذکر کئے ہیں وہ تمام قرآن شریف سے ہی ثابت ہیں۔ اس قرآن سے جو تمام عالم نے محمد رسول اللہ ﷺ کی زبان سے سنا تو یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ ان سب فضیلتوں کی نسبت آنحضرت ﷺ کی جانب ہے اور انہیں کے واسطے سے دنیا کو مسیح بن مریم کے یہ کمالات معلوم ہوئے گویا ان فضائل اور کمالات کی بخشش و عنایت بارگاہ نبوت محمد ﷺ سے ہوئی ہے اور ظاہر ہے کہ محسن اس سے افضل ہے جس پر احسان کیا جارہا ہے پھر عقلاً یہ بات بھی مسلّم ہے کہ کسی کے کمال کا اظہار خود اس ظاہر کرنے والے کے کمال کی دلیل ہے کہ اس ذات کو کسی کے کمال و فضیلت کے بیان اور اظہار میں کوئی جھجک اور ادنیٰ تأمّل بھی نہیں۔ یہ ایثار و احسان اس کی طرف سے ہوتا ہے جس کی فضیلت دنیا میں مسلم ہو۔

اگر قرآن ان فضائل کو بیان نہ کرتا تو دنیا کو مسیح بن مریم علیہ السلام اور ان کی والدہ کی فضیلت تو کیا معلوم ہوتی اہل کتاب کی محرف اور بے بنیاد باتوں اور بیہودہ خیالات کی اشاعت کی وجہ سے تو آنے والی نسلیں نہ معلوم مریم علیہا السلام اور مسیح بن مریم علیہ السلام کے متعلق کیا کیا نظریات قائم کرتیں۔ تمام عیسائیوں پر یہ احسان صرف قرآن کریم اور صاحبِ قرآں محمد رسول اللہﷺ کا ہے کہ سیدتنا مریم علیہا السلام کی پاکدامنی اور  نساء عالمین(اس زمانے کی عورتیں مراد ہیں جس زمانے میں مریم علیہا السلام موجود تھیں) پر ان کی برتری کے ساتھ عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت اور کمالات نبوت سے دنیا کو روشناس کرایا۔اور ان کے دشمنوں کے جو لغو اعتراضات اور بیہودہ خیالات تھے ان کی بڑی  تفصیل و وضاحت سے تردید کی  اگر قرآن اور صاحب قرآن کا یہ احسان عظیم نہ ہوتا تو دنیا مسیح علیہ السلام کی نبوت و فضیلت تو درکنار ان کی اور ان کی والدہ کی پاکدامنی اور شرافت نسبی سے بھی ناواقف ہی رہتی۔

بائبل اور انجیل سے دنیا کو مسیحی مذہب سے متعلق سوائے اوہام و شکوک اور چند ناقابل فہم اور خلافِ عقل باتوں کے اور کچھ نہ ملتا۔ یا پھر کچھ ایسی ہی چیزیں پائی جاتیں جو عام بازاری،شہوت پرست،عیاش اور بد اطوار انسان کے سوا کسی میں قابل تصور نہیں ہوسکتیں۔ ان فحش اور غیر مہذب حوالوں کے لئے مقدمہ تفسیر حقانی از  صفحہ ۵۷۶ ملاحظہ کیا جائے۔ وہ فحش تشبیہات ہیں کہ نہ معلوم پادری لوگ گرجا میں کس طرح ان کو سناتے ہوں گے یا شرم سے اپنی آنکھیں نیچی کرلیتے ہوں گے ۔ عیسائیوں کو اپنی کتاب سے اگر کچھ ملتا تو وہ یہی کہ ان کے پیغمبر بیت اللحم کے اصطبل کے اندر پیدا ہوئے جیسا کہ انجیل لوقا کے دوسرے باب میں تصریح ہے۔ مسیح بیت اللحم کے اندر پیدا ہوئے:- یا پھر یہ نظر آتا کہ یسوع مسیح کی پیدائش یوں ہوئی کہ جب ان کی ماں مریم کی منگنی یوسف سے ہوئی تو ان کے جمع ہونے سے پہلے وہ حاملہ پائی گئی۔ تب ان کے شوہر یوسف نے چاہا کہ انھیں چپکے سے چھوڑ دیں الخ بحوالہ تفسیر حقانی  ج۲ ص۵۸(اس بیان کو مد نظر رکھتے ہوئے مسیح بن مریم کا بزعم نصاریٰ خدا کا بیٹا ہونا تو کیا ثابت ہوگا۔ صحیح نسب کا مسئلہ حل ہونا مشکل ہوگا۔)

اس کے مقابل قرآن کریم جس عظمت و احترام سے حضرت مسیح کی ولادت اور پاکدامنی اور نزاہت کا ذکر کرتا ہے، قرآن کی ان آیات کو دیکھ کر ہر انسان اپنے قلب کو ہر دو کی عظمت و فضیلت و عفت و پاکدامنی سے لبریز پاتا ہے (تفصیل کے لئے دیکھئے سورہ مریم،آل عمران اور سورہ تحریم) اور اگر عیسائیوں کو اپنی کتاب میں اپنے پیغمبر کے بارے میں کچھ ملتا ہے تو وہ ایسے شرمناک الفاظ ہیں کہ کوئی عاقل انسان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف ان اقوال کی نسبت نہیں کرسکتا مثلاً انجیل یوحنّا کے باب ۱۶ میں حضرت مسیح علیہ السلام کا یہ قول نقل کیا گیا ہے۔”مجھ سے پہلے جس قدر انبیاء آئے سب چور و رہزن تھے، پھر اسی قول کی تقلید کرتے ہوئے پولوس مقدس حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جانب میں کیا گستاخی کرتے ہیں۔ ہم موسیٰ کی مانند عمل نہیں کرتے جس نے اپنے چہرے پر پردہ ڈالا تھا تاکہ بنی اسرائیل بخوبی نہ دیکھ سکیں الخ۔”

معاذ اللہ کیا یہ اقوال ایسے ہیں کہ کسی پیغمبر کی طرف ان کی نسبت کی جائے۔ الغرض قرآن کا یہ بڑا احسان براہ راست نصاری پر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کی حقیقی فضیلت اور برتری کے ساتھ عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت اور کمالات نبوت اور دلائل نبوت کو بھی بیان کردیا بس یہی ایک سبب بہت کافی ہے محمد رسول اللہ ﷺ کے تمام انبیاء سے افضل ہونے کے لئے کہ آپ کی کتاب کے ذریعے خدا کے پیغمبروں کی سچی اور پاکیزہ شخصیت پہچانی جاتی ہے۔ جس طرح قرآن دوسرے انبیاء کے فضائل کو واضح طریق پر بیان کرتا ہے ایسا ہی مسیح علیہ السلام تک جتنے پیغمبر گزرے ہیں سب کے فضائل ایک سے ایک نرالے انداز میں قرآن بیان کررہا ہے۔

یہ تمام فضائل کا ذکر اپنے ایک ایک حرف کے ساتھ گواہی دے رہا ہے کہ ان سب فضیلتوں سے بڑھ کر خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ کی فضیلت ہے جن کی وحی انبیاء علیہم السلام کی نبوت ان کے کمالات اور معجزات پر ایک مہر ثبوت ہے۔

افضلیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم

Standard

ایک عیسائی کی لمبی تحریر پڑھنے کا اتفاق ہوا اس میں اس بیچارے نے یہ کوشش کی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام قرآن میں محمد ﷺ کے نام سے زیادہ آیا نیز قرآن میں کسی عورت کا نام نہیں آیا لیکن حضرت مریم کا نام آیا اور ان کے نام کی ایک سورت بھی قرآن میں موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس پورے مضمون میں بیچارے نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت محمد ﷺ سے افضل ہیں۔

مختصراً چند باتیں اس سلسلہ میں

۱۔ قرآن کریم محمد ﷺ پر نازل ہوا تو اور وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے تو عرض یہ ہے کہ گفتگو ہوتی ہے تو سیکنڈ پرسن( second person)  کا نام نہیں لیا جاتا ہے بلکہ تیسرے شخص کا نام زیادہ لیا جاتا ہے۔

نیز اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو یہ فضیلت دی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتہ حضور ﷺ پر درود نازل فرماتے ہیں، یہ فضیلت کسی نبی کے اندر نہیں پائی جاتی، اللہ تعالیٰ نے اسریٰ و معراج حضور ﷺ کو عطا فرمائی یہ فضیلت بھی کسی نبی کے حصہ میں نہیں آئی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی تمام تر فضیلتوں کے باوجود وہ آخری زمانہ میں محمدِ عربی ﷺ کے امتی بن کر اس امت میں بھیجے جائیں گے۔ اس سے بھی فخر دو عالم ﷺ کی فضیلت دیگر انبیاء علیہم السلام والتسلیم پر ثابت ہوتی ہے۔ مزید بتہ سے فضائل ہیں۔

۲۔ حضرت مریم پر یہودی بہتان باندھتے تھے جس کا جواب قرآنِ کریم نے دیا ہے اس لئے حضرت مریم  کا ذکر قرآن میں بیشمار جگہ پر آیا ہے۔ یہ بھی عیسائیوں کے لئے سوچنے سمجھنے کی بات ہے کہ جس کا جواب عیسائی نہ دے سکے اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے ان بہتانات کا جواب اپنے کلام میں دے دیا.

مزید دلچسپی رکھنے والے حضرات یہاں پر ان کے جوابات کو تفصیلاً پڑھ سکتے ہیں۔

اللہ پاک تمام انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام پر رحمتیں نازل فرمائیں۔

آمین۔

عیسیٰ علیہ السلام کا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزہ کا معازنہ اور عیسائیت کے اعتراض کا جواب

Standard

اعتراض نمبر ۳: قرآن کریم اس بات پر شاہد ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو زندہ کرتے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نہ قرآن میں اور نہ احادیث میں مردوں کے زندہ کرنے کا تذکرہ ہے؟

جواب: اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ مادر زاد نابیناؤں کو تندرست اور مردوں کو زندہ کرنے کا معجزہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس وجہ سے دیا گیا کہ اس زمانے میں طب کو بہت عروج تھا اور خداوند عالم کی یہ سنت رہی ہے کہ جس زمانے میں جو چیز سب سے زائد معیار ترقی اور عروج پر ہوتی اسی نوع کا انبیاء کو معجزہ دیا جاتا ہے تاکہ دنیا دیکھ لے کہ یہ کمال طاقت بشریہ سے بالا و برتر ہے اور اس کا ظہور صرف قدرت خداوندی کی طرف سے ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جادوگری فن شباب پر تھا تو  حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وہ معجزے دئے گئے جن کے سامنے بڑے بڑے جادوگر عاجز رہے اور اس کو دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام کے سامنے اطاعت کی گردنیں جھکادیں۔ اس چیز کو ملحوظ رکھتے ہوئے سمجھ لیجئے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں فصاحت و بلاغت کا زور تھا۔ تو اس مناسبت سے آپ کو قرآن کا معجزہ دیا گیا جس کی فصاحت و بلاغت نے عرب کے مایئہ ناز شعراء کو عاجز کردیا نیز اگر کوئی ایک معجزہ کسی پیغمبر کو دیا گیا اور کسی دوسرے کو نہیں دیا گیا تو یہ بات اس دوسرے پیغمبر کی تنقیص کی دلیل نہیں۔

بہرحال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اس قدر عظیم المرتبت و کامل ہیں کہ ان کے معجزات کی نظیر و مثیل دنیا پیش نہ کرسکی جیسے قرآن کریم وغیرہ میں اسی طرح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک درخت کو آواز دی تو اکھڑ کر آپ کے سامنے آتا ہے اور تین مرتبہ اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمد رسول اللہ کی گواھی دیتا ہے جب کہ ایک شخص نے آپ سے پر زُور لفظوں میں یہ مطالبہ کیا کہ آپ کی رسالت کی گواہی کون دے سکتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ درخت اور اس کو بلایا اور اس نے گواھی دی۔

اسی طرح معجزہ معراج کہ ایک رات میں مکہ سے بیت المقدس اور وہاں سے ساتویں آسمانوں پر تشریف لے جانا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی کے اشارے سے چاند کا دو ٹکڑے ہو جانا یہ تمام واقعات جو قرآن سے اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں کسی طرح بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات سے کم نہیں بلکہ بڑھ کر ہیں کیوں کہ یہ باتیں ایسے طور پر واقع ہو رہی ہیں کہ ان کی نوع میں عقلاً اس کی ذرہ بھر بھی صلاحیت نہ تھی۔ مردوں کو زندہ کرنے کے واقعات میں کوئی سن کر یہ کہہ بھی سکتا ہے کہ جس مردہ کو دفن کیا تھا مرا ہی نہ تھا بلکہ اس کو سکتہ کی بیماری تھی۔(لیکن یہ بات واضح رہے کہ اس سے احقر عیسیٰ علیہ السلام کے معجزہ کا منکر نہیں بلاکہ اس سے ثابت یہ کرنا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ عیسیٰ علیہ السلام کے معجزہ اور ان سے بہتر اور افضل ہے) وہ دور ہوگئی لیکن سنگریزوں کی تسبیح۔ پتھروں کا سلام، انگلیوں سے پانی کے چشموں کا جاری ہونا اور درخت کے اپنی جگہ سے اکھڑ کر روبرو حاضر ہونے کے بعد گواہی دینے کی عقلاً کیا تاویل ممکن ہے۔

دوسری بات یہ کہ جتنے بھی انبیاء کرام علیہم السلام بعثت دنیا میں ہوئی یعنی آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ معجزہ دیا گیا، مگر آقائے نامدار تاجدار بطحیٰ احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ تمام کے تمام معجزات ایک ہی ذات کے اندر موجود تھے، چنانچہ کسی فارسی شاعر نی کیا ہی خوب کہا ہے۔

حسن یوسف دم عیسیٰ یدبیضاداری

آنچہ خوباں ہمہ دراند تو تنہاداری

عیسیٰ علیہ السلام کو گود میں نبوت ملی اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو چالس سال میں تو عیسیٰ علیہ السلام افضل ہوئے کا جواب

Standard

اعتراض نمبر ۲:- حضرت مسیح علیہ السلام کو گود میں کتاب دی گئی جیسا کہ قرآن کریم ناظق ہے  إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ مگر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو چالیس سال بعد خداوند قدوس نے کتاب دی۔

جواب: اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی نبوت اور کتاب و انجیل ماں کی گود میں نہیں دی گئی البتہ گفتگو بے شک ماں کی گود میں انہوں نے کی جس کا قرآن نے ذکر کیا ہے اور اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ماں ہی کی گود میں کتاب و نبوت دونوں چیزیں شیرخوارگی کی حالت میں دے دی گئیں تو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وجہ سے فضیلت لازم نہیں آتی، عقلی اعتبار سے اس سے بڑھ کر کمال تو یہ ہے کہ کسی ایک شخص کو چالیس برس کی طویل مدت تک اسی طرح دیکھتی رہی کہ نہ وہ ایک حرف  لکھ سکتا ہے اور نہ پڑھ سکتا ہے اور پھر ناگہاں اسی کی زباں سے علوم و ہدایت اور معارف و حقائق کے سمندر جاری ہوجائیں اور وہ کلام جو دنیا کو اپنے مقابلے کا اعلان (چیلنج) کرے اور تمام دنیا اس کے مقابلے سے عاجز رہے۔ عرب کے فصیح و بلیغ اس جیسی ایک بھی سطر پیش نہ کرسکے یقیناً یہ کلام ماں کی گود میں کلام کرنے سے بڑھ کر ہے پھر یہ بات بھی ثابت ہے کہ مسیح علیہ السلام کی طرح ماں کی گود میں دو اور بچوں نے بھی کلام کیا ہے حضرت ابو  ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ماں کی گود میں سوائے تین بچوں کے اور کوئی نہیں بولا۔ ایک حضرت عیسی علیہ السلام، دوسرا وہ بچہ جو جریج کے زمانے میں تھا اور تیسرا ایک اور بچہ واقعہ کی تفصیل کے لئے صحیح مسلم کی مراجعت کی جائے۔ جریج عابد و زاہد شخص تھا وہ اپنی ماں کی غلط بد دعاء کی وجہ سے ایک فتنہ میں مبتلا ہوا کہ ایک بدکار عورت اس کے گرجا کے قریب پناہ لینے والے چرواہے سے زنا کر کے حاملہ ہوئی اور ولادت پر یہ کہہ دیا کہ یہ جریج سے پیدا ہوا پس اس نومولود بچے نے لوگوں کے سامنے گوایہ دی کہ میرا باپ تو چرواہا ہے ، دوسرا ایک اور بچہ جو ماں کی گود میں دودھ پی رہا تھا اس کی ماں نے ایک شہسوار کو گزرتے دیکھ کر تمنا کی کہ اے اللہ تعالیٰ تو میرے بیٹے کو ایسا ہی بنادے، تو اس بچے نے کہا کہ اے پروردگار تو مجھے ایسا نہ بنا۔(صحیح مسلم ج۲،ص۳۱۳)

پس معلوم ہوگیا کہ ماں کی گود میں بات کرنا صرف عیسیٰ علیہ السلام کی خصوصیت نہیں یہ چیزیں تو اکثر بچوں کے لئے بھی قدرت خداوندی نے ظاہر کی ہیں۔

بہرحال دوسری تردید یہ ہے کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ عرب کے اندر ایک یہودی گھر میں لڑکا پیدا ہوا ہے جو کہ صرف ڈیڑھ سال کی عمر میں نماز اور دیگر عبادات کا پابند ہوگیا اور کچھ یہ دنوں کے بعد بلا جھجھک عربی میں تقریریں کرتا ہے اور اسلام پر کئے جانے والے اشکالات کے جوابات دیتا ہے۔ اب بھلا بتائیں کہ کیا یہ لڑکا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فوقیت لے جائے گا؟ ہرگز نہیں پس اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت سے فوقیت نہیں لے جاسکتے۔

اعتراض قرآن میں عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا ذکر ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کا ذکر نہیں

Standard

عیسائیت کے اعتراضات کے جوابات ۱

اعتراض نمبر ۱۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی والدہ کو قرآن شریف نے صدیقہ کہا ہے اور ان کی شان میں  وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاءِ الْعَالَمِينَ بیان کر کے بتا دیا کہ ان کو تمام جہاں کی عورتوں پر فضیلت دی ہے اس کے بر خلاف محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کا قرآن کریم میں کوئی ذکر نہیں آیا؟

جواب: بیشک قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا ذکر کیا اور ان کو صدیقہ کہا ہے اور آنحضرت ﷺ کی والدہ ماجدہ کا ذکر قرآن میں نہین۔ لیکن اس سے مسیح علیہ السلام کی حضور ﷺ پر افضلیت لازم نہیں آتی حضرت مسیح علیہ السلام کی والدہ کے ذکر کی وجہ تو یہ ہے کہ یہود ان پر بہتان لگاتے تھے اس بناء پر ان کی عفت و پاکدامنی کا ذکر کیا گیا۔ اس کے برخلاف حضور ﷺ کی والدہ کے بارے میں کسی دشمن نے بھی ایک حرف بدگمانی کا نہیں لگایا تھا اسی وجہ سے ان کے ذکر کی ضرورت نہ تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا خاص اہتمام سے ذکر کیا برخلاف دوسرے انبیاء علیہم السلام کے ان کی ولادت کا مسئلہ کسی اعتراض یا شبہ کا محل نہ تھا اس لئے قرآن  نے اس سے کوئی تعرض نہیں کیا۔