قرآن اللہ کی کتاب ہے

Standard

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قرآنِ مجید اللہ کی کتاب ہے، یہ انسانیت کے لئے ابدی پیغام اور زندہ دستور العمل ہے، یہ بیک وقت دماغ کو بھی مطمئن کرتی ہے اور بربط دل کو بھی چھیڑتی ہے، یہ ایک انقلاب انگیز کتاب ہے، جیسے سورج کی تمازت میں کبھی کمی نہیں آسکتی اور سمندر کی وسعتوں کو کم نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح اس کتاب کی اثر انگریزی، اس کی تاثیر، دلوں کو زیر و زبر کردینے کی صلاحیت اور فکر و نظر پر چھا جانے کی طاقت میں کبھی کوئی کمی نہیں ہوسکتی، یہ رواں دواں زندگی میں انسان کی رہنمائی کی پوری صلاحیت رکھتی ہے، اس لئے اس کی آب و تاب میں کوئی فرق نہیں آسکتا، خود اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے، جو اس بات کا اعلان ہے کہ قرآن مجید قیامت تک اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ محفوظ رہے گا۔

دنیا میں جو دوسری مذہبی کتابیں ہیں، انسانی زندگی سے ان کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے، آج کوئی ہندو،بدھسٹ یا عیسائی اپنی تجارت، کاروبار، نظامِ حکومت، طریقۂ عدل و انصاف، ازدواجی زندگی، خاندانی تعلقات، مختلف قوموں کے باہمی روابط اور اس طرح کے دوسرے مسائل میں اپنی مذہبی کتابوں سے رجوع نہیں کرتا، نہ وہ اپنے مذہبی علماء سے احکام و مسائل معلوم کرتے ہیں، زیادہ سے زیادہ بعض قومیں نحس و برکت وغیرہ کے سلسلہ میں جو توہمات ہیں، ان کے لئے مذہبی شخصیتوں سے رجوع ہوتے ہیں اور کچھ عباداتی رسوم کو اپنی عبادت گاہوں میں انجام دیتے ہیں، عام لوگ ان کتابوں کو نہ پڑھتے ہیں، نہ سمجھتے ہیں، سمجھاجاتا ہے کہ کچھ مخصوص لوگ ہی اس کو پڑھنے اور سمجھنے کے اہل ہیں، اس لئے ان قوموں کی زندگی میں مذہب کا ہمہ گیر تصور نہیں پایا جاتا اور وہ زندگی کے عام مسائل میں اپنی خواہش کے متبع ہیں،ـــــــ نہ کوئی حلال، نہ حرام، نہ جائز  نہ ناجائز اور نہ مکروہ، نہ مستحب۔

لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اُمتِ مسلمہ اپنی بہت سی کمزوریوں اور کوتاہ عملیوں کے باوجود آج بھی اپنے مذہب سے مربوط ہے، خود ہمارے ملک ہندوستان میں بیسیوں دار الافتاء ہیں، جن کے پاس روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں فتاویٰ کی ڈاک آتی ہے اور لوگ زندگی کے نوع بہ نوع مسائل کے بارے میں حکمِ شرعی دریافت کرتے ہیں، کسی جبر و دباؤ کے بغیر اپنے سینکڑوں نزاعات کو شرعی پنچایت اور دار القضاء میں لے جاتے ہیں اور مسلمان، چاہے زندگی کے کسی بھی شعبہ میں ہو، اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے زندگی گذارے، اسی چیز نے اسے الحاد و بد دینی کے اس طوفان میں بھی دین سے ربوط رکھا ہے اور وہ اس لادینی ثقافت کے آگے سر تسلیم خم کرنے کو تیار نہیں ہے، جس کے سامنے آج تمام قومیں اپنی شکست تسلیم کرچکی ہیں، یہ سب قرآن مجید کا فیض ہے، یہ وہ چیز ہے جس نے حق اور سچائی کے دشمنوں کو قرآ ن مجید کے خلاف کھڑا کردیا ہے، لیکن یہ بات کہ قرآن مجید کا کچھ حصہ حذف کردیا جائے، کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ مطالبہ تو خود نزولِ قرآن کے زمانہ میں بھی ہوا۔(سورہ یونس :15) لیکن جیسے ان معاندین کی خواہش ناکام و نامراد ہوئی، آج جو لوگ قرآن مجید کے خلاف زبان کھول کر سورج پر تھوکنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کی اس بے جا خواہش اور مطالبہ کا بھی وہی حشر ہوگا۔

ہندوستان میں حقیقت پسند ہندو علماء نے ہمیشہ قرآن مجید کو عقیدت و احترام کی نظر سے دیکھا ہے، گاندی جی اور ونوبا بھاوے جی مذہبی شخصیت کے حامل تھے، گاندھی جی قرآن سے بہت متاثر تھے اور اس کی تلاوت بھی کیا کرتے تھے، یہی حال ونوبا بھاوے جی  کا تھا، انہوں نے تو قرآن کی منتخب آیات کا ترجمہ اور مختصر تشریح بھی “روح القرآن” کے نام سے مرتب کی ہے، ہندوستان میں طباعت و اشاعت کی موجودہ سہولتوں اور پریس کی کثرت کے دور سے پہلے قرآن مجید کی طباعت میں سب سے نمایاں کام “منشی نو لکشور لکھنو” کا ہے، وہ صحت کے مکمل اہتمام کے ساتھ قرآن مجید طبع کیا کرتے تھے اور طباعت کے لئے سنگی تختیاں تیار کرتے تھے، نیز انہیں احتراماً دوسرئ زئر طباعت کتابوں اور ان کی تختیوں سے اوپر رکھا کرتے تھے۔(مأخوذ 24 آیتیں از مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)

قرآن کا چیلینج قیامت تک—- ملحدین کی نقاب کشائی

Standard

بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم، قرآن ِ کریم کا چیلینج رہتی دینا تک پر ملحدین نے آیتوں کو اپنے سیاق و سباق سے نکال کر جواب دینے کی ناکام کوشش کی ہے کہ قرآن کے اس چیلینج کے اس جیسی ایک سورت بھی لاکر دکھادو کا جواب مشرکینِ مکہ کے شعراء نے دیا ہے۔

قرآن کریم ہی کے انداز میں ہمارا ان ملحدوں سے سوال ہے

 هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

اپنی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو،

یہ بات ثابت کردو کہ واقعی مشرکینِ مکہ نے جواب دیا ہے اور اس قرآن عظیم جیسی کوئی سورت ان لوگوں نے بھی لکھی تھی۔

اٹکل پچوؤں سے تمھاری بات سچ ہونے والی نہیں ہے۔ تمھارے جھوٹے دعوؤں میں سے ایک اور جھوٹ عیاں ہوگیا ہے۔

ایسا کیسے ممکن ہے کہ مشرکینِ مکہ کے جواب دینے کے باوجود اور نعوذ باللہ قرآن کے دعوے غلط ہونے کے باوجود بھی مکہ کے لوگ اور عرب کے لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس وقت مکہ والوں کے پاس سارے عالم سے لوگ حج کے سیزن میں آتے تھے اور قریش بڑا ہی عظمت والا قبیلہ تھا وہ تو اس کا خوب اشتہار کرتے اور اسلام کے خلاف اتنا عظیم موقعہ ہاتھ سے گوانے کا ان کے پاس کوئی مانع نہیں تھا۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ابولہب،ابو جھل وغیرہ وغیرہ اس سنہرے موقعہ کو ہاتھ سے جانے دیتے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ سفیانؓ اس عظیم فتح کے بعد اسلام کے آغوش میں آتے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مکہ والے جو مسلمانوں اور بیغمبرِ اسلام علیہ الصلوٰۃ و سلام کے قتل کے در پر تھے اور بدر،احد،احزاب جیسے عظیم معرکہ ہوئے اور کئی کفار جھنم رسید ہوئے۔ اس سے تو آسان ان کے لئے یہ بات تھی کہ وہ ان آیتوں یا سورتوں کی تشہیر کرتے جس کا تم (اے ملحدو!) دعویٰ کرتے ہو۔

ان جانی و مالی خسارے اٹھانے سے زیادہ اچھا موقعہ اور اسلام کو شکست دینے کا بہترین موقعہ اس سے زیادہ کیا ہوسکتا تھا کہ بیغمرِ اسلام ﷺ نے جو دعویٰ قرآن کریم کے ذریعہ پیش کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس جیسی دس سورتیں لے آو ، اور اس دعوے کے جواب کے بعد قریش اور مشرکین خاموش بیٹھ گئے اور حالت تو  یہ تھی کہ انہیں مسلمانوں پر دست ترس حاصل تھی اور مسلمانوں کو ایذاء رسانی بھی کرتے تھے ۔

الحمد للہ ہمارا دعویٰ ہے کہ آج تک قرآن کریم کے اس چیلینج کو کسی نےبھی پورا نہیں کیا ہے اور نہ کرسکے گا۔

قرآن کی ترتیب پر اعتراض کا مختصر جواب

Standard

ملحد کا اعتراض: قرآن کی پہلی آیت نزول کے اعتبار سے اقراء بسم ربک ہے لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کے پہلی سورت سورہ فاتحہ ہے۔

جواب:-

قرآن کی پہلی وحی تو وہی ہے جس کو آپ نے اپنے سوال میں لکھا ہے۔ یہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہر رمضان جبریل علیہ لسلام تشریف لاتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کا دور فرمایا کرتے تھے اور وصال سے پہلے والے رمضان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲ دور کئے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی آیت نازل ہوتی تو ارشاد فرماتے تھے کہ اس کو فلاں سورہ میں فلاں جگہ لکھو یا فلاں آیت کے بعد لکھو۔

ان شاء اللہ اس کا تفصیلی جواب عنقریب دیا جائے گا۔

قیامت کے دن کافروں کے چہرے سیاہ ہو جائینگے

Standard

اللہ تعالیٰ قرآن کریم سوره آل عمران آیت ١٠٦ میں فرماتے ہیں

يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ

ترجمہ:” اس دن(قیامت کے دن) بعض چہرے سفید ہوں گے  اور بعض چہرے سیاہ ہوں گے ، پھر جن کے چہرے سیاہ ہوں گے ان سے کہا جائے گا کہ کیا تم ہی کافر ہوگے تھے اپنے ایمان کے بعد سو عذاب چکھو اپنے کفر کی پاداش میں.”(القرآن ٣/١٠٦)

چہرے کی سفیدی اور سیاہی سے کیا مرد ہے؟

 

چہرے کی سفیدی اور سیاہی کا ذکر قرآن مجید میں بہت سے مقامات میں آیا ہے

مثلاً:

(الف) وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ تَرَى الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّهِ وُجُوهُهُمْ مُسْوَدَّةٌ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْمُتَكَبِّرِينَ (٣٩/٦٠)

(ب) وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ ، ضَاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ ، وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌ ،تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ (٨٠/٣٨-٤١)

(ج) وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ ،  إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ(٧٥/٢٢-٢٣)

        ان آیات میں ایک ہی مفہوم سے متعلق متعدد الفاظ ذکر کیے گئے ہیں ، یعنی “بیاض” اور “سواد” “غبرہ” ، “قرة” ، اور “نضرة” جمہور مفسرین کے نزدیک سفیدی سے مرد نور ایمان کی سفیدی ہے یعنی مومنین کے چہرے نور ایمان سے روشن اور غایت مسرّت سے خنداں اور فرحاں ہوں گے ، اور سیاہی سے مراد کفر کی سیاہی ہے یعنی کافروں کے چہروں پر کفر کی کدورت چھائی ہوگی اور اوپر سے فسق و فجور کی ظلمت اور زیادہ تیرہ و تاریک کردے گی.

      امام قرطبی ؒ نے اپنی تفسیر میں آیت يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ   کے متعلق فرمایا کے مومنین مخلصین کے چہرے سفید ہوں گے لیکن ان کے علاوہ ان تمام لوگوں کے چہرے سیاہ ہوں گے جنہوں نے دین میں تغیر و تبدّل کیا ہو خواہ وہ مرتد اور کافر ہوگئے ہوں، خواہ اپنے دلوں میں نفاق کو چھپائے ہوئے ہوں ان سب کے ساتھ یہی معاملہ کیا جائے گا.(تفسیر قرطبی از معارف القرآن)

 

        بعض جاہل متعصبین نے اس آیت پر بعض اعتراضات کئے ہیں ان شاء الله ہم جواب دینے کی کوشش کرینگے

١. یہ کالے رنگ سے اتنی نفرت اور گورے سے اتنی محبت کیوں؟ اور کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ حضرت بلال حبشی بیچارے پر یہ آیت کیسی بجلی بن کر گری ہو گی؟

٢. الله پاک نے کالے کو برا اور گورے کو اچھا کہ کر پھر کالے لوگ کیوں پیدا کیے؟ کیا یہ نسلی انتہا پسندی نہیں ھے؟
٣. یوم قیامت کو حبشی لوگوں کا کیا بنے گا؟ ان کے چہرے تو ویسے ہی کالے ہوتے ہیں

الجواب بعون الوھاب:

معترض کے تینوں سوالات سے اس کی جہالت اظہر من الشمس ہے. ان تینوں سوالات کے جوابات اپ کو اپر ہماری خ گئی تفسیر میں مل جائیں گے.

سلسلے وار مختصر جوابات یہ رہے

١.حضرت بلال حبشیؓ ان آیات کے نزول کے وقت موجود تھے کچھ گزرتی تو پتا چل جاتا مگر کچھ نہیں گزری سواے خوشی کہ کیوں کہ وہ ایمان والے تھے اور قیامت کے دن ان کا چہرہ روشن ہی ہوگا .

٢. یہاں الله تعالى نے نہ گورے کو اچھا کہا اور نہ ہی کالے کو برا کہا ہے صرف مثال دی ہے کے ان لوگوں کے چہرے سیاہ ہو جائیں گے جو کفر و ارتداد کرتے ہیں

لیجیے جناب آج دنیا میں برے کام کرنے والوں کی طرف کچھ اسی طرح نسبت کی جاتی ہے چند مثالیں

ا) سزا کے طور پر منہ کالا کیا جاتا ہے

ب) کوئی برا کام کر کے آنے والے کے لئے یہ جملہ زبان زد ہے

“کہاں منہ کالا کر کے آے”  علی ہٰذا بہت سی مثالیں دی جاتی ہیں

اس سے کسی کالے کی تخصیص نہیں ہوتی بل کہ اگر انڈے سے زیادہ بھی سفید ہو تو برے کام پر یہی کہا جاتا ہے .

٣. جیسا کہ آیات کی تفسیر سے واضح ہے کے اصل مدار نجات ایمان پر ہے تو موصوف جو یہ لکھ ہیں کے روز قیامت حبشیوں کا کیا ہوگا تو جواب یہ ہے کے حبشی اگر ایمان لے ہے تو وہ جنّت ممیں جائینگے انکے چہرے نور ایمان سے منور ہونگے اور اگر ایمان نہیں لائیں تو کفر کی ظلمت سے کالے ہونگے.

اب موصوف معترض کوچاہئے  کے پہلے اپنی فکر کریں اور قیامت کے دن ان کے ساتھ کیا ہوگا اس کا سونچیں اور ایمان لائیں ایک الله پر جس کے سوا کوئی معبود نہیں.

واللہ اعلم بالصواب.