حقوق انسانی کا پہلا منشور اسلام نے جاری کیا

Standard

حقوق انسانی کا پہلا منشور اسلام نے جاری کیا


عام طور پر دو سو برس قبل برپا ہونے والے ’’انقلابِ فرانس‘‘ کے اس اعلان کو انسانی حقوق کا سب سے پہلا اعلان کہاجاتا ہے جس میں تمام انسانوں کی آزادی ، مساوی حقوق اور تحریر وتقریر کی آزادی کو اولیت دی گئی ہے، اس کے بعد ۱۹۴۸ء میں عالمی ادارے اقوام متحدہ نے حقوق انسانی کی فہرست پر ازسر نو توجہ دی اور تیس دفعات پر مشتمل ’’انسانی حقوق کا ایک عالمی منشور منظور کیا جس کا لب لباب یہ ہے کہ ’’آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے بنیادی طور پر تمام انسانوں کے حقوق ومراتب یکساں ہیں۔مذہب ذات پات یا جنس ورنگ کی بنیاد پر کوئی شخص امتیازی یا ترجیحی سلوک کا حقدار نہیں، اسی طرح انسانوں کی خرید وفروخت ان کے ساتھ وحشیانہ سلوک یا اہانت آمیز رویہ اپنایا نہیں جاسکتا وغیرہ لیکن اسلام نے اس سے چودہ سو برس قبل ہی انسانی حقوق کا کامل ومکمل اعلان کردیا تھا اور ایک ایسے دور میں کیا تھا جب ہر طرف جہالت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی اور انسانی حقوق سے دنیا قطعی نابلد وناواقف تھی ، اس وقت طاقت واقتدار ہی حق کا معیار سمجھاجاتا تھا۔ شخصی آزادی کا تصور بھی نہ تھا اور کمزور کو طاقتور کے آگے لب کشائی کی اجازت تک نہ تھی، انسانی حقوق کا یہ پہلا منشور کسی خاص قبیلے، مخصوص قوم یا ملک کیلئے نہ تھا بلکہ بلا تعین وتخصیص پوری دنیا اس کے دائرہ میں سمٹ آئی تھی اور اس منشو ر کا صرف اعلان ہی نہیں کیا گیا بلکہ اس کو عملی جامہ بھی پہنایا گیا جس کی سینکڑوں مثالوں سے تاریخ وسیرت کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ مثلاً ایک مسلمان رسول پاکؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرتا ہے کہ اے اللہ کے رسول ﷺ آپ میرے دونوں بیٹوں کو بھی مسلمان بنالیجئے اس پر سورہ بقرہ کی یہ آیت نازل ہوتی ہے کہ
’’دین کے مقابلہ میں کسی سختی کی ضرورت نہیں گمراہی اور ہدایت دونوں واضح ہوچکی ہیں جسے جو راستہ پسند ہے اسے وہ اختیارکریگا۔‘‘اسلام نے صرف عقیدہ کی آزادی کا ہی احترام نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ دوسری آزادیوں مثال کے طور پر عبادت کی آزادی،شخصی آزادی تحریر وتقریر کی آزادی اور سیاسی شہری آزادی کو بھی برت کردکھایا ہے۔ ایک معمولی شخص فرمانروائے وقت سے بھری محفل میں سوال کرسکتا ہے اسی طرح اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے انسانوں کو بتایا کہ وہ برابر ہیں ان کے حقوق وفرائض بھی یکساں ہیں۔ حسب ونسب ،رنگ ونسل، دولت وحیثیت کی بنیاد پر کسی کو کسی پر ترجیح نہیں ہے۔ اسلام میں بزرگی یا برتری کا معیار صرف خدا ترسی اور خدمتِ خلق ہے لہذا قرآن حکیم میں جگہ جگہ اس امر کی نشاندہی کی گئی کہ ’’اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک مرد آدم اور ایک عورت حوا سے پیدا کیا ہے اور پھر تمہیں مختلف گروہوں اور قبیلوں میں (صرف) اس لئے تقسیم کردیا تھا کہ تم ایک دوسرے کو شناخت کرسکو، ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ بزرگی کا معیار صرف خدا ترسی ہے (سورہ حجرات) اسی رہنما اصول کے تحت حضرت بلال حبشیؓ ، حضرت ابوبکر صدیقؓ جیسے اعلیٰ نسب قریشی کے بھائی بن گئے۔ حضرت صہیب رومیؓ اور حضرت سلمان فارسیؓ تمام مسلمانوں کے ہم پلہ قرار پائے۔
اسلام نے جہاں مساوات کا اعلان کیا وہیں یہ بھی کہا کہ ہر مسلمان کو تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے بلکہ تعلیم کو اس نے فرض قرار دیکر ایک امتیازی روایت کی بنیاد ڈالی۔ اسلام سے پہلے کسی ملک وقوم نے تعلیم کو فرض قرار نہیں دیاتھا۔ مگر حضور پاک ﷺ کا فرمان ہے ’’علم حاصل کرنا ہرمومن مردوعورت پر فرض ہے‘‘ قرآن حکیم میں بھی اس کی تاکید آئی ہے۔ اور جس کی ہر مسلمان کو شدید ضرورت ہے۔

ماخوذ

کیا مذہب ہی تنہا وہ نقاب ہے جسے ظالم حکمراں استعمال کرتے رہے ہیں؟؟؟

Standard

اسلام اور آزاد خیالی حصہ ۶

یہ صحیح ہے کہ مذہب کے نام پر ایک عرصہ تک دنیا میں ظلم و ستم کی حکمرانی رہی اور یہ بھی سچ ہے کہ اب تک بعض ملکوں میں مذہب ہی کے نام پر ظلم وستم کا دور دورہ ہے۔ لیکن سوال اٹھتا ہے کہ کیا مذہب ہی تنہا وہ نقاب ہے جسے ظالم حکمراں استعمال کرتے رہے ہیں۔ کیا ہٹلر نے اسی مذہب کے نام پر حکومت کی تھی؟ یا اسٹالن جس کے بارے میں روسی صحافیوں اور دانشوروں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ وہ بڑا سخت گیر،ظالم، مطلق العنان تھا، اس نے روس پر ایک پولیس کی طرح حکومت کی ہے اس نے اپنی حکومت و اقتدار کی خاطر مذہب ہی کا نعرہ بلند کیا تھا؟اور کرتہے ہیں، یہ تو وہ لوگ ہیں جو مذہب کے نام پر چراغ پا ہوجاتے ہیں اور مذہب کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اس لئے اب یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ بیسویں صدی جس نے مذہب سے نجات پانے کے لئے کیا کیا نہ جتن کئے اور اس کے لئے کیا کیا قربانیاں نہ دیں، مگر اسے وحشیانہ مطلق العنانی کا وہ دور دیکھنا پڑا  جس میں مذہب سے زیادہ پر کشش اور مقدس نام کے سہارے بنی نوع انسان کو زبردست فریب دیا گیا۔

کوئی بھی شخص مطلق العنانی (Dictatorship) کی تعریف نہیں کرسکتا اور نہ ہی کوئی آزاد ذہن و دماغ اور بیدار قلب و ضمیر والا انسان اسے تسلیم ہی کرسکتا ہے۔ اسی طرح فطرت و طبیعت کی سلامت روی کا تقاضا تو یہ ہے کہ خواہشات نفسانی کی اتباع کئے بغیر حق خالص کا اقرار کرلیا جائے۔ لیکن اس کے برعکس دیکھنے میں یہ آیا کہ ہر خوبصورت اور محترم اصول (principle) کو غلط طور پر استعمال کیا گیا ہےا ور اپنے ذاتی اغراض و مفاد کو چھپانے کے لئے اسے بہترین پردہ بنایا گیا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انقلاب فرانس (French Revolution) کے نشہ کے دوران اسی آزاد خیالی (Liberalism) کے نام پر انتہائی بد ترین اور خبیث قسم کے جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ تو کیا اس کی روشنی میں ہم جذبۂ استقلال و حریت کو لغو قرار دے دیں؟ اور اسی طرح سینکڑوں بے قصور اور معصوم انسانوں کو دستور کے نام پر قید و بند کی صوعبتیں جھیلنا پڑیں،سزائیں دی گئیں، یہاں تک کہ رسم دار ورسن بھی پوری کی گئی، تو کیا اس وجہ سے ہم دستور کو ایک قلم منسوخ کردیں ، یا کچھ ملکوں میں مذہب کے نام پر اب بھی ظلم وستم کی حکمرانی ہے۔ کیا یہ مناسب بات کوگی کہ اس سے نجات پانے کے لئے ہم مذہب ہی سے محروم ہوجائیں؟ ہاں ہم ایسے مذہب کو ضرور دیس نکالا دیں گے اور اسے ممنوع قرار دیں گے جو اپنے نصاب تعلیم، نظریاتِ زندگی، نیز بذات خود ظلم و تشدد اور ناانصافی کی تبلیغ و اشاعت کرتا ہوگا۔ لیکن کیا یہ مثال اسلام پر بھی صادق آتی ہے؟ جو کہ عدل و انصاف کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ اور خاص بات تو یہ ہے کہ اسلام کا عدل و مساوات صرف مسلمانوں ہی کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ نازک سے نازک حالات میں بھی غیر مسلموں،دشمنوں،جنگی حملہ آوروں کے لئے بھی عام ہے۔

آئیے، ذرا سوچیں کہ آخر اس کا علاج کیا ہوسکتا ہے؟ تو حالات و مشاہدات سے واضح ہوتا ہے کہ ظلم و ستم،سرکشی و بغاوت سے نپٹنے کے لئے صرف ایک طریقہ ہے، وہ یہ کہ اہل ایمان کا ہر اول دستہ تیار کیا جائے جو اللہ وحدہ لا شریک لہ پر پختہ عقیدہ رکھتا ہو اور اس آزادی کا احترام کرتا ہو جس کی دعوت مذہب نے دی ہے اور جس آزادی کی حفاظت کی ذمہ داری خود مذہب کے اوپر ہے۔ یہ ایمانی ہر اول دستہ ظالم حکمراں کو کبھی بھی نا انصافی کی اجازت نہیں دے گا۔ بلکہ جائز اختیرات کے حدود میں رہ کر انہیں کام کرنے کی ترغیب دے گا۔ میرا خیال ہے کہ عدل و انصاف کا استحکام و قیام نیز جبر و تشدد کا مقابلہ کرنے کے لئے اسلام سے بہتر کبھی بھی کسی نظام حکومت کی تشکیل اس سر زمین پر نہیں ہوئی۔ اسلام نے عوام پر ذمہ داری ڈالی ہے کہ اگر حکمراں منصف نہ ہوں تو انہیں صحیح راستہ پر لگائیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے

من رأى منكم منكرا فليغيره (صحیح مسلم)

یعنی تم میں کا کوئی شخص اگر برائی دیکھے تو اسے دور کرے۔ دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ

“یعنی عدل انصاف کا ایک کلمہ (بات) جو ظالم بادشاہ کے سامنے کہا گیا ہو وہ جہاد سے بڑھ کر ہے۔(ابو داود و ترمذی)

بہر حال آخر میں ہم اپنے ترقی پسند اور آزاد خیال (progressive & Free Thinker) بھائیوں سے صرف ایک بات کہیں گے وہ یہ کہ آزادئ خیال کا صحیح راستہ اور ذریعہ مذہب بیزاری نہیں ہے بلکہ اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو ایسی مضطرب اور انقلاب انگیز روح سے آشنا کرایا جائے جو ظلم سے نفرت کرتی ہو اور ظالم کا مقابلہ کرسکتی ہو دراصل یہی جذبۂ ایمانی اور روح مسلمانی ہے جو بندۂ مؤمن کو مطلوب ہے۔

اے خدا سینۂ مسلم کو عطا ہو وہ گداز

تھا  کبھی  حمزہؓ  و  حیدرؓ  کا  جو  سرمایۂ  ناز

پھر فضا میں تیری تکبیر کی گونجے آواز

پھر تو اس قوم کو دے گرمی روح آغاز

نقش  اسلام  ابھر  آئے  جلی  ہوجائے

ہر مسلمان  حسینؓ   ابن  علیؓ  ہو جائے

(جوشؔ)

اسلام مرد کی تربیت اور عورت کا پردہ

Standard

الحمد للہ اسلام نے دونوں کو پردہ کی تعلیم دی ہے، یہ دہریہ اور ملحدین اسلام سے بغض میں ایسی حرکتیں کرتے ہیں، دیکھو اسلامی تعلیماتَ

مردوں کے لیے احکام:-

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

آیت:  قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ (النور :۳۰)۔

ترجمہ: ” آپ مسلمانوں مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ صفائی کی بات ہے۔”(النور :۳۰)۔

مزید احادیث میں نبی کریم ﷺ کے فرامیں ملاحظہ ہوں

احادیث: ۱۔ حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے اتفاق نگاہ کے متعلق سوال کیا، تو فرمایا: “نگاہ پھیر لو”(مسند احمد،مسلم،ابو داود،ترمذی)۔

حدیث۲:۔آپ ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: “اے علی! ایک نگاہ کے بعد دوسری نگاہ نہ ڈالو۔۔۔۔”(مسند احمد،ابو داود،ترمذی)۔

حدیث۳ :۔ حجۃ الوداع میں ایک عورت آپ ﷺ سے مسئلہ پوچھنے آئی تو حضرت فضلؓ اس کی طرف دیکھنے لگے، تو آپﷺ نے ان کی ٹھوڑی پکڑ کر چہرہ دوسری  طرف پھیر دیا ۔۔۔۔۔(بخاری)

عورتوں کے لئے احکام:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

آیت:  وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ (النور :۳۱)۔

ترجمہ: اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔۔۔”(سورہ النور:۳۱)۔

حدیث: ایک مرتبہ حضرت ابن ام مکتومؓ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے حضرت ام  سلمہؓ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما کو ان سے پردہ کا حکم دیا، اس پر حضرت ام سلمہؓ نے عرض کیا وہ تو نابینا ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا:”کیا تم دونوں بھی نابینا ہو، تم انہیں نہیں دیکھ رہی ہو؟”(ابو داود،نسائی،ترمذی،ابن حبان)۔

الحمد للہ اسلام کامل اور مکمل دین ہے، اس پر عمل کر لیں گے عورت کی عزت کی حفاظت بھی ہوجائے گی اور مرد کی تربیت بھی۔ اور ماحول بالکل باحیا ہوجائے گا۔

آزادی نسواں ایک فریب

Standard

عورتوں کی آزادی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ہر نام نہاد سیکولر اور دین بیزار مرد و عورت کی زبان پر یہ نارا ہے کہ ہمیں “عورتوں کی آزادی ” چاہئے۔ اسلام نے عورت کو قید کر کے رکھ دیا ہے، مرد اور عورتیں برابر ہیں وغیرہ وغیرہ۔

      سننے میں شاید یہ نارے اچھے لگے لیکن یہ عورتوں کے ساتھ فریب کیا جارہا ہے، ان کے جسم تک پہنچنے کے یہ حیلے بہانے ہیں۔ ذرا غور کریں مغرب نے عورت کو کیا دیا ہے؟ اور اسلام نے کیا دیا ہے۔

اسلام نے عورت کے تحفظ کی پوری ھدایات دی ہیں اس کا نان نفقہ کی ذمہ داری اس کے باپ،بھائی،شوہر،بیٹوں میں تقسیم کی ہے۔ اس کو گھر کی ملکہ بنایا ہے۔  اسلام سے پہلےعورت کو زندہ درگور کیا جاتا تھا اسلام نے آکر اس جاہلانہ رسم کو ختم کیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا جس کے یہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ اس کی اچھی تربیت کرے وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا(مشکوٰۃ) اور بھی بڑے فضائل احادیث میں عورتوں کے آئے ہیں۔

یورپی ممالک نے عورت کو کیا دیا ، اسے ایک  برہنہ یا نیم برہنہ مردوں کے لئے تحفہ بنا دیا ہے۔ جہاں کہیں دیکھو عورتوں کے جسم کی نمائش ہوتی ہے۔ لیڈرس کی محفلوں میں ان کو نیم برہنہ سجایا جاتا ہے، کرکت میچس میں ان کو چیر لیڈر کا نام دیکر ان کے جسم کی نمائش کی جاتی ہے تو کہیں کسی اور طریقے سے ان کے جسم جی نمائیش ہوتی ہے گویا کہ عورتیں ان کے نزدیک ایک ٹشّو پیپر(tissue paper) سے بھی حقیر ہے، استعمال کی اور اسے پھینک دیا۔

ہماری بہنوں سے غذارش ہے کہ اسلام میں عورت کے مقام کو پڑھیں اور سمجھیں، غور کریں کے اسلام نے عورتوں کو کیا دیا ہے اور ان مغرب والوں نے کیا دیا ہے۔

نیچے ایک مختصر سی فہرست پیش کی جارہی جس سے پتہ چلیگا کے سال 2012 میں دنیا میں کن ممالک میں زنا (rape) کے کیسس زیادہ ہوئے، دیکھئے آیا وہ مسلم ممالک ہے یا مغربی ممالک اور ان کے ہم نشیں۔

2012 کے ایک سروے کے مطابق  لاکھ میں اتنے فیصد ریپ(زنا) کے کیسس رکارڈ ہوئے ہیں(یہ ٹائمس آف انڈیا 23 جولائی 2014 کی رپورٹ ہے)

امریکا: 85593

برازل : 41180

انڈیا: 22172،

برطانیہ: 15892

میکسیکو: 14993

فرانس:10108

جرمنی: 7724

سویڈن: 5960

روسی فیڈریشن: 4718

فلپائن: 4718

کولمبیا: 3157

http://timesofindia.indiatimes.com/india/India-comes-third-in-rape-cases-second-in-murder-in-the-world-Report/articleshow/38936240.cms

یہ بات ہر بہن تک پہنچائے جو آزادئے نسواں کے پر شکوہ جھانسے میں آرہی ہے۔

مذہب اسلام

Standard

مذہب  اسلام

مذہب دنیا میں بہت ہیں مگر ایسا مذہب جو ہر بات پر دلیل اور برہان پیش کرتا ہو اور بے دلیل باتوں کا رد کرتا ہو اور جن کو اپنے آغوش میں  آنے کی دعوت دیتا ہو سب سے پہلے ان کو تفکّر اور تدبّر کا حکم دیتا ہو کہ مجھ کو قبول کرنے سے پہلے میری تعلیمات کو عقل اور برہان کی کسوٹی پر پرکھ لو اور خوب سوچ لو اور سمجھ لو جب تمہارا قلب مطمئن ہوجائے اس وقت اس دعوت کو قبول کرو.

كما قال تعالى:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُبِينًا                                    (القران ٤/١٧٤)

ترجمہ: ” اے لوگو! بلاشبہ الله کی طرف سے تمہارے پاس ایک دلیل آئی ہے اور ہم نے تمہاری ہدایت کیلئے ایک نہایت چمکتا ہوا نور اتارا ہے.”

كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ  (القرآن ٢/٢٤٢)

ترجمہ:” بیان کرتا ہے الله تعالیٰ اپنی نشانیوں کو تاکے تم سمجھو.”

كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ (القرآن ٢/٢١٩)

ترجمہ:” اسی طرح الله تعالیٰ تمہارے لئے اپنی آیتوں کو بیان کرتا ہے تاکہ تم غور اور فکر کرو.”

اور اپنے مخالفین سے بھی دلیل اور برہان کا مطالبہ کرتا ہے.

کما قال تعالیٰ:

قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (القرآن ٢/١١١)

ترجمہ:” آپ ان سے کہ دیجیے کہ اپنے دعوے پر دلیل لاؤ اگر سچے ہو.”

إِنْ عِنْدَكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ بِهَذَا أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ

(القرآن ١٠/٦٨)

ترجمہ:” اس دعوے پر تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں کیا الله پر ایسی بات کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں.”

ایسا مذہب صرف اور صرف مذہب اسلام ہے.

قرآن کریم میں اس قسم کی آیتیں بہت بکثرت موجود ہیں لہذا یہ کہنا کے اسلام ایسا مذہب ہے کے جو اپنی باتوں کو بے دلیل منوانا چاہتا ہے ایک کھلا ہوا بہتان ہے.

ہر مذہب میں کچھ اصول ہوتے ہیں اور کچھ فروع، اصول کم ہوتے ہیں اور فروع زیادہ انکا فرداَ فرداَ سمجھانا دشوار ہے بلکہ تطویل لا طائل اور بیکار ہے، اصول سمجھ لینے کے بعد فروع کا سمجھنا دشوار نہیں اس لئے الله تعالیٰ کی توفیق سے اس ناچیز کو یہ خیال ہوا کہ اصول اسلام پر ایک مختصر اور جامع تحریر لکھ دی جائے۔