قرآن کا چیلینج قیامت تک—- ملحدین کی نقاب کشائی

Standard

بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم، قرآن ِ کریم کا چیلینج رہتی دینا تک پر ملحدین نے آیتوں کو اپنے سیاق و سباق سے نکال کر جواب دینے کی ناکام کوشش کی ہے کہ قرآن کے اس چیلینج کے اس جیسی ایک سورت بھی لاکر دکھادو کا جواب مشرکینِ مکہ کے شعراء نے دیا ہے۔

قرآن کریم ہی کے انداز میں ہمارا ان ملحدوں سے سوال ہے

 هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

اپنی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو،

یہ بات ثابت کردو کہ واقعی مشرکینِ مکہ نے جواب دیا ہے اور اس قرآن عظیم جیسی کوئی سورت ان لوگوں نے بھی لکھی تھی۔

اٹکل پچوؤں سے تمھاری بات سچ ہونے والی نہیں ہے۔ تمھارے جھوٹے دعوؤں میں سے ایک اور جھوٹ عیاں ہوگیا ہے۔

ایسا کیسے ممکن ہے کہ مشرکینِ مکہ کے جواب دینے کے باوجود اور نعوذ باللہ قرآن کے دعوے غلط ہونے کے باوجود بھی مکہ کے لوگ اور عرب کے لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس وقت مکہ والوں کے پاس سارے عالم سے لوگ حج کے سیزن میں آتے تھے اور قریش بڑا ہی عظمت والا قبیلہ تھا وہ تو اس کا خوب اشتہار کرتے اور اسلام کے خلاف اتنا عظیم موقعہ ہاتھ سے گوانے کا ان کے پاس کوئی مانع نہیں تھا۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ابولہب،ابو جھل وغیرہ وغیرہ اس سنہرے موقعہ کو ہاتھ سے جانے دیتے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ سفیانؓ اس عظیم فتح کے بعد اسلام کے آغوش میں آتے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مکہ والے جو مسلمانوں اور بیغمبرِ اسلام علیہ الصلوٰۃ و سلام کے قتل کے در پر تھے اور بدر،احد،احزاب جیسے عظیم معرکہ ہوئے اور کئی کفار جھنم رسید ہوئے۔ اس سے تو آسان ان کے لئے یہ بات تھی کہ وہ ان آیتوں یا سورتوں کی تشہیر کرتے جس کا تم (اے ملحدو!) دعویٰ کرتے ہو۔

ان جانی و مالی خسارے اٹھانے سے زیادہ اچھا موقعہ اور اسلام کو شکست دینے کا بہترین موقعہ اس سے زیادہ کیا ہوسکتا تھا کہ بیغمرِ اسلام ﷺ نے جو دعویٰ قرآن کریم کے ذریعہ پیش کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس جیسی دس سورتیں لے آو ، اور اس دعوے کے جواب کے بعد قریش اور مشرکین خاموش بیٹھ گئے اور حالت تو  یہ تھی کہ انہیں مسلمانوں پر دست ترس حاصل تھی اور مسلمانوں کو ایذاء رسانی بھی کرتے تھے ۔

الحمد للہ ہمارا دعویٰ ہے کہ آج تک قرآن کریم کے اس چیلینج کو کسی نےبھی پورا نہیں کیا ہے اور نہ کرسکے گا۔

RSS کے سوالات کے جوابات ۱

Standard

جواب حاضر ہے !۔

از مولانا خالد سیف اللہ رحمانی!۔

            آر ایس ایس کے ترجمان آرگنائزر یکم مارچ ۲۰۱۵ء کے شمارہ میں آر ایس ایس کی جانب سے مسلمانوں کے نام دس سوالات پیش کئے گئے ہیں ، یہ دراصل ان چھ سوالات کے مقابلہ میں ہیں ، جو سنی علماء کونسل نے سنگھ پریوار کے سامنے پیش کئے تھے ، آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت خود تو مسلمانوں سے ملاقات کا حوصلہ نہ کرسکے ؛ لیکن سنگھ کی ایماء پر راشٹریہ مسلم منچ کے صدر اندریش کمار ( جن کا شمار سنگھ کے اہم ذمہ داروں میں ہوتا ہے ) نے سنی علماء کونسل کے وفد سے ملاقات کی ، کونسل کی طرف سے چھ سوالات کئے گئے ، ان میں پہلا سوال یہ تھا کہ کیا سنگھ بھارت کو ایک ہندو ملک مانتا ہے ؟ دوسرا سوال تھا کہ کیا سنگھ نے بھارت کو ہندو راشٹر میں بدلنے کے لئے کوئی خاکہ تیار کیا ہے ؟ تیسرا سوال : کیا یہ ہندو راشٹر ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کے مطابق ہوگا یا سنگھ نے کوئی نیا فلسفہ تیار کیا ہے ؟ چوتھا سوال یہ کہ تبدیلی ٔمذہب پر وہ کیا چاہتے ہیں ؟ پانچواں سوال کہ سنگھ مسلمانوں سے کس طرح کا راشٹریہ پریم چاہتا ہے ؟ اور چھٹا سوال کہ سنگھ اسلام کو کیسے دیکھتا ہے ؟

            اندریش کمار جی ان سوالات کا جواب دینے کے موقف میں نہیں تھے ، اس لئے انھوں نے جواب دینے سے انکار کردیا ؛ البتہ انھوں نے ٹالنے کے لئے یہ بات کہی کہ مسلمانوں کا ایک اجلاس بلایا جانا چاہئے ، وہ وہاں عوامی طورپر جواب دیں گے ۔

            ان سوالات کے رد عمل کے طورپر سنگھ کے ایک نمائندہ ڈاکٹر پرمود پاٹھک جو ویدک اسکالر ہیں اور گوا کے رہنے والے ہیں ، نے دس سوالات مسلم تنظیموں اور علماء سے کئے ہیں ، بعض سوالات مذہبی نوعیت کے ہیں اور بعض سیاسی ، سیاسی اُمور سے متعلق سوالات کا جواب اصل میں ان لوگوں کو دینے کا حق ہے جو اس میدان میں سرگرم ہیں ؛ لیکن کوشش کی جائے گی کہ مذہب سے متعلق سوالات کے ساتھ ساتھ کچھ تبصرہ ان سیاسی سوالات پر بھی ہوجائے ۔

کیا ہندو کافر ہیں ؟

            ان کا پہلا سوال یہ ہے کہ کیا آپ ہندو یا کسی غیر ہندو کو کافر تسلیم کرتے ہیں ؛ کیوںکہ جیساکہ کہا گیا ہے کہ ایک وقت آئے گا کافروں کا صفایا کردیا جائے گا ؟

            اسلام کی بنیاد عقیدۂ توحید پر ہے ، عقیدۂ توحید سے مراد یہ ہے کہ اللہ اپنی ذات کے اعتبار سے بھی ایک ہے ، دو یا اس سے زیادہ خدا نہیں ، اللہ کا کوئی کنبہ یا خاندان نہیں ، نہ اس کی بیوی ہے ، نہ اس کے ماں باپ ہیں اور نہ اس کی اولاد ، وہ اپنی صفات و اختیارات میں بھی یکتا ہے ، عبادت صرف اسی کی کی جاسکتی ہے ، جو لوگ ان باتوں کا اقرار کرلیں ، ان کو ’’ مسلم ‘‘ کہتے ہیں ، مسلم کے معنی ہیں خدا کو ایک ماننے والا ، ایک خدا کے سامنے سر جھکادینے والا ، جو لوگ خدا کو ایک تسلیم نہیں کرتے ، خدا کا انکار کرتے ہیں یا کئی خدا مانتے ہیں ، ان کے لئے کوئی اصطلاح ہونی چاہئے ، اسی اصطلاح کے طورپر کافر کا لفظ استعمال کیا گیا ، کافر کے معنی ہیں : عقیدۂ توحید کا انکار کرنے والا ، یا دوسرے لفظوں میں خدا کو ایک نہ ماننے والا ، اس اعتبار سے جو لوگ اسلام قبول نہیں کرتے وہ کافر کہلاتے ہیں ؛ کیوںکہ کافر کے معنی انکار کرنے والے کے ہیں ، جو لوگ آخرت کا انکار کرتے تھے ان کے لئے قرآن مجید نے کہا ہے : ’’ وَھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ کَافِرُوْنَ‘‘ (یوسف : ۳۷) اسی طرح جو لوگ توحید کا اور انبیاء کے ذریعہ آنے والے دین کا انکار کیا کرتے تھے ، وہ خود اپنے بارے میں کہتے تھے ، ہم اس کے کافر یعنی منکر ہیں : ’’ اِنَّا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِہٖ کَافِرُوْنَ‘‘ ( زخرف : ۲۴) بعض ہندو بھائیوں کے ذہن میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ کافر کا لفظ اہانت آمیز ہے ، یہ درست نہیں ہے ، یہ تو صرف اظہار واقعہ ہے کہ فلاں شخص دین اسلام کا قائل نہیں ، اگر کافر کا لفظ اہانت آمیز ہوتا تو قرآن مجید میں بار بار اہل مکہ کو ’’ کافرون ‘‘ کے لفظ سے مخاطب کیا گیا ، انھیں یہ بات ناگوار گذرتی اور وہ اس پر اعتراض کرتے ؛ لیکن ان کی طرف سے ایسا کوئی ردعمل ظاہر نہیں ہوا ، اس کے باوجود فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کسی غیر مسلم کو کافر کے لفظ سے مخاطب کرنا گراں گذرتا ہے تو انھیں کافر سے مخاطب نہ کیا جائے ، اگر کوئی مسلمان ایسا کرے تو گنہگار ہوگا : ’’ ولو قال لذمی : یا کافر ! یأثم إن شق علیہ‘‘ ( الاشباہ والنظائر : ۲؍ ۲۵۷) اگر کسی نے کسی ذمی کو ’’ اے کافر ! ‘‘ کہہ کر پکارا ، جو اس پر گراں گذرتا ہو تو اے کافر کہنے والا شخص گناہ گار ہوگا ۔

            رہ گئی یہ بات کہ ایک وقت آئے گا جب کافروں کا صفایا کردیا جائے گا ، یعنی مسلمان تمام کافروں کو تہہ تیغ کردیں گے ، یہ بات نہ قرآن میں آئی ہے اور نہ حدیث میں اور نہ کبھی مسلمانوں نے ایسا دعویٰ کیا ، مسلمان اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ جنگ اور دباؤ کے ذریعہ پوری دنیا کو مسلمان کردیا جائے ؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ‘‘ ( البقرۃ : ۲۵۶) یعنی انسان کو خود سمجھنا چاہئے کہ ہدایت کا راستہ کونسا ہے اور کونسا راستہ گمراہی کی طرف لے جاتا ہے ؟ ایسا نہیں ہے کہ اسلام کی اشاعت میں جبر و اکراہ سے کام لیا جائے ، اگر مسلمانوں نے بہ زور تلوار دین کو پھیلانے کی کوشش کی ہوتی اور جو اسلام قبول نہ کرے ، اس کوتہہ تیغ کردیتے تو آج مسلمان ہندوستان میں ایک چھوٹی سی اقلیت میں نہ ہوتے اور کیا برہمنوں ، پنڈتوں ، جاٹوں اور راجپوتوں ، نیز مراٹھوں جیسی طاقتور ، بہادر ، حوصلہ مند اور جنگ جو قوموں کے بارے میں یہ بات سوچی جاسکتی ہے کہ انھوںنے کسی طاقت سے دب کر اسلام قبول کرلیا ہوگا ؟ — حدیث میں البتہ یہ بات آئی ہے کہ قیامت کے قریب آسمان کی طرف سے ایک مرد ِغیب کی آمد ہوگی جس کا انتظار مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں اور عیسائیوں کو بھی ہے ، ان کے ذریعہ پوری دنیا میں دین حق پھیل جائے گا اور سارے لوگ مسلمان ہوجائیں گے ، پاٹھک جی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہئے کہ کافروں کا صفایا قتل و خون اور مار کاٹ کے ذریعہ ہوگا ؛ بلکہ یہ دعوتِ اسلام کے ذریعہ ہوگا اور لوگ اپنی مرضی سے اسلامی تعلیمات سے متأثر ہوکر ایمان لے آئیں گے ، اس عقیدہ میں غیر مسلم بھائیوں سے کسی نفرت کا بالکل اظہار نہیں ہے ۔

اللہ کی طرف لے جانے والے

            دوسرا سوال یہ کہ کیا گیا ہے کہ چوںکہ آپ اسلام کو اللہ کی طرف لے جانے والا مانتے ہیں تو کیا دوسرے مذہب ہندو ، جین ، بودھ ، سکھ اور دوسرے مذاہب کیا اسی راستے پر گامزن ہیں اور اسی طرف لے جانے والے ہیں ؟

            اس سلسلہ میں یہ عرض ہے کہ ظاہر ہے اللہ کی طرف لے جانے والا راستہ وہی ہوگا ، جو خود اللہ کا بتایا ہوا راستہ ہو ، اللہ نے اپنا راستہ بتانے کے لئے ہر زمانہ میں اپنے پیغمبر بھیجے ، انسان کی کمزوری یہ ہے کہ اس کو ہر چیز میں ملاوٹ کی عادت ہے ، اب دیکھئے کہ دودھ ، گھی اور شہد سے لے کر پھل اور اناج تک کوئی چیز ایسی نہیں ، جس میں انسان اپنی یہ کارستانی نہ دکھاتا ہو ، بڑے افسوس کے ساتھ یہ بات عرض کرنی پڑتی ہے کہ ہمارے سنگھ پریوار کے دوستوں نے پوری توجہ مذہبی منافرت کو بڑھانے پر مبذول کر رکھی ہے ، اگر وہ اس کے بجائے ویدک دھرم کی حقیقت کو جانتے اور ان کو لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے تو واقعی وہ قوم کے سب سے بڑے محسن اور حقیقی سیوک ہوتے ، دنیا میں جب بھی خدا کی طرف سے دین بھیجا گیا تو اس کی بنیاد اللہ کو ایک ماننے ، اللہ ہی کی عبادت کرنے اور اللہ ہی کے احکام پر عمل کرنے کی تعلیمات پر تھی ، لوگوں نے ملاوٹیں پیدا کرکے اصل دین کو متأثر کردیا ۔

            آج کل ہندو مذہبی کتابوں میں توحید کی بات اتنی وضاحت سے کہی گئی ہے کہ اگر بصیرت کی آنکھ موجود ہو تو اندھا بھی اسے دیکھ لے ، قرآن مجید کہتا ہے کہ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ، جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ، ( الفاتحہ : ۱ ) … وید کا بیان ہے : اس دنیا کے بنانے والے کے لئے تعریف ہے ، ( ۵ : ۱۸ : ۱ ) قرآن کہتا ہے کہ اللہ کی ذات رحمن و رحیم ہے ، (الفاتحہ : ۲ ) وید کا بیان ہے کہ وہ دینے والا اور مہر بان ہے ، (رگ وید : ۳ : ۳۴ : ۱ ) قرآن نے کہا ہے کہ ہر چیز کو اللہ ہی نے پیدا کیا ، ( الفرقان : ۲ ) وید کا بیان ہے : پرما تما سب پرجا کو بناتا ہے ، ( اتھر وید : ۱۹ : ۱ ) قرآن کہتا ہے کہ اللہ ہی کے لئے آسمان اور زمین کی حکومت ہے ، ( البقرۃ : ۱۰۷ ) وید کا بیان ہے : وہی عظیم زمین و آسمان کا مالک ہے ، ( رگ وید : ۱۰۱ ) ، قرآن کہتا ہے کہ مشرق و مغرب کا اللہ ایک ہی ہے ، ( البقرۃ : ۱۱۵ ) وید کا بیان ہے کہ سب سمتیں اسی کی ہیں ( رگ وید ، ۱۰ : ۱۲۱ : ۴ ) قرآن کہتا ہے کہ اللہ کے مانند و مماثل کوئی چیز نہیں ’’ لیس کمثلہ شیٔ‘‘ ( الشوریٰ : ۱۱ ) وید کا بیان ہے : اس پر میشور کی کوئی مورتی نہیں بن سکتی ( یجر وید ، ۳۲ : ۳ ) قرآن کہتا ہے کہ خدا تمہارے ساتھ ہے ، خواہ تم کہیں بھی ہو ، اور تم جو کچھ بھی کرتے ہو ، وہ اسے دیکھ رہا ہے ، ( الحدید : ۴ ) وید کا بیان ہے : جو کھڑا ہوتا ہے ، جو چلتا ہے ، جو دھوکہ دیتا ہے ، جو چھپتا پھرتا ہے ، جو دوسروں کو تکلیف دیتا ہے ، جو دو آدمی خفیہ بات کرتے ہیں ، تیرا ایشور ان سب کو جانتا ہے ، ( اتھر وید : ۴ : ۱۶ : ۲ ) قرآن کہتا ہے : اللہ ہی خالق اور حاکم ہے ، اللہ جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ، بڑی خوبیوں والا ہے ، تم لوگ اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور پست آواز میں دعاء کرو ( الاعراف : ۵۵ ، ۵۴ ) وید کا بیان ہے : قابل پرستش زمین اور آسمان کو سچے راستہ پر چلانے والے پر میشور سے عاجزی سے ہاتھ اٹھا کر دعاء مانگو ( رگ وید : ۶ : ۱۶ : ۴۶ ) … کہاں تک مثالیں پیش کی جائیں ، اللہ تعالیٰ کی توحید اور صفات کے بیان میں قرآن مجید اور ویدوں میں اس قدر یکسانیت ہے کہ حیرت ہوتی ہے ، اگر ہندوتوا تنظیمیں لوگوں کو لاٹھی اور بندوق سکھانے کے بجائے وید کا نغمۂ توحید سنائیںاور ویدک دھرم کا اصل نظریۂ توحید ان کے سامنے پیش کریں تو کتنی بھلی بات ہوگی ، اس طرح انسان کا رشتہ خداسے مضبوط ہوتا ، اور خدا کی توحید کا تصور انسانی وحدت کا ماحول پیدا کرنے اور طبقاتی تفریق سے انھیں بچانے میں ممد و معاون ہوتا ، کلمۂ طیبہ کے پہلے جزء کا خلاصہ یہی عقیدہ توحید ہے ، اب ہندو بھائی سوچیں کہ مورتی پوجا کر کے وہ اپنی مذہبی کتابوں کے احکام کی تعمیل کر رہے ہیں ، یا اس کی مخالفت اور عدول حکمی ؟

            اسلام مسلمانوں کی میراث نہیں ہے یہ تو پوری انسانیت کی امانت ہے ، جن لوگوں نے اپنی امانتوں کو کھو دیا ہے ، ان کے لئے ہم نے ان کی متاع گم گشتہ کی حفاظت کی ہے ، وہ آئیں اور اپنے خدا کی دی ہوئی امانت شوق کے ہاتھوں قبول کرلیں ، ہندو مذہب ہو یا جین یا بودھ یا سکھ ، ہر مذہب کی بنیادی تعلیم توحید ، رسالت اور آخرت ہے ، جو لوگ ان حقیقتوں کو تسلیم کرلیں گے ، وہ سب اللہ کے راستہ پر آجائیں گے ۔

            البتہ اس حقیقت کے اظہار میں کوئی تکلیف نہیں کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کے مختلف مذاہب کے ماننے والوں نے اپنے مذہب کی حقیقی تعلیمات کی حفاظت نہیں کی ، یہاں تک کہ گرونانک جی جن پر زیادہ عرصہ نہیں گذرا انھوںنے صراحتاً گرو گرنتھ میں عقیدۂ توحید کا ، قرآن مجید کی حقانیت کا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ذکر فرمایا ہے ؛ لیکن اس کے باوجود سکھ بھائی بھی عملاً شرک میں مبتلا ہوگئے ۔

            اس لئے ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا کی طرف لے جانے والا سیدھا اور درست راستہ اسلام ہے ، جس کی ابتدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہوئی ؛ بلکہ حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی اور ہر زمانہ میں مختلف پیغمبروں کے ذریعہ جس کو ویدوں میں دُوت ( سفیر ) سے تعبیر کیا گیا ہے آتے رہے ، یہی سارے انسانیت کا اصل مذہب ہے ، وہ اپنی آخری شکل میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ انسانیت تک پہنچا اور جس طرح پہنچا اسی طرح محفوظ ہے ، اس لئے خدا تک پہنچنے کا یہی ایک راستہ ہے ، ہندو بھائی اور دوسرے اہل مذاہب اپنے اصل مذہب پر آجائیں جو قرآنی تعلیمات کو شامل ہے تو وہ بھی خدا کے راستے پر ہوں گے اور اگر انھوںنے اس کو قبول نہیں کیا تویہ چیز انھیں اللہ کی طرف لے جانے کی بجائے اللہ کے راستے سے ہٹادینے والی ہوگی ۔

            یہ کوئی تنگ نظری نہیں ہے ؛ بلکہ ہر مذہب وہ خدا اور آخرت کے بارے میں جو تصور پیش کرتا ہے ، اسی کو حق اور مدار نجات قرار دیتا ہے ، ہندو مذہب میں بھی جو لوگ اس مذہب کو قبول نہ کریں ، وہ ان کے عقیدہ کے مطابق خدا کے راستہ سے ہٹے ہوئے ہیں اور ان کو نرک میں جانا ہوگا ، یعنی اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ خدا کے راستہ سے ہٹے ہوئے لوگوں میں اس کا شمار ہوگا ، ہندو مذہب کی موجودہ شکل کے اعتبار سے تو بعض لوگ ذات پات کی بنیاد پر بھی دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے ؛ چنانچہ منوسمرتی میں ہے : ’’ جو کوئی شودر کو دھرم کی تعلیم دے گا اور جو اسے مذہبی مراسم ادا کرنا سکھائے گا وہ اس شودر کے ساتھ ہی اسم ورت نامی جہنم میں جائے گا ‘‘ ۔ ( منو سمرتی : ۴ : ۸۱)۔

            لیکن بہر حال اس کا تعلق آخرت سے ہے نہ کہ دنیا سے ، آخرت میں ثواب و عذاب دینے کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے نہ یہ کہ کوئی قوم دوسری قوم کو عذاب دے گی ؛ لیکن اس دنیا میں ایک قوم دوسری قوم کے ساتھ تشدد یا اہانت کا رویہ اختیار کرے ، اسلام نے اس سے منع کیا ہے ۔ ( جاری)۔

(شمع فروزاں روزنامہ منصف 31 جولائی 2015)

حج کے متعلق اشکالات کے جوابات

Standard

حج کے متعلق اشکالات و جوابات

پنڈت جی کے اعتراضات کے دندان شکن جوابات

اعتراض: طواف کرنے پر

 سوال:آپ لوگ ہم پہ کیوں اشکال کرتے ہیں کہ تم لوگ لال لال کپڑے پہن کر گنگا ندی پوجا کرنے جاتے ہوں حالاں کہ آپ لوگ بھی ایسا یہ معاملہ کرتے ہں کہ جب حج کرنے جاتے ہیں تو احرام باندھتے ہیں پھر پتھر کا چکر لگاتے ہیں لہٰذا یہ بھی ایک شرک ہے اگر شرک ہے تو حج و طواف کرنے کی کیا وجہ ہے؟

جواب: دراصل حق جل مجدہ نے انسان کو پیدا کیا تاکہ میری عبادت کرے اور عبادت کی دو قسم ہیں۔

(۱)انکسار و تذلل

(۲) محبت و ایثار۔

انکسار و تذلل کے لیے نماز کا حکم ہے جو جسمانی رنگ میں انسان کے ہر عضو کو خشوع و خضوع کی حالت میں ڈالتی ہے حتی کہ بندہ پورے جسم و جثہ کے ساتھ سجدہ ریز ہوجاتا ہے۔

        دوسری قسم ہے محبت و ایثار یعنی بندہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں تڑپتا ہے اس وقت ان کی ضرورت ہوتی ہے کہ کس طرح اپنا شوق پورا کریں تو سوائے حج و طواف کے اور کوئی ایسی چیز نہیں مل سکتی جس سے انسان اپنی محبت کا اظہار کرے۔

اعتراض: احرام میں مرد و عورت بغیر سلے ہوئے کپڑے پہنتے ہیں۔

سوال: آپ ہمیں کیوں کہتے ہیں کہ تم لوگ صبح سویرے صرف شرمگاہ چھپاتے ہو اور غسل کرنے کے بعد ستر کو صحیح طریقے سے چھپاتے بھی نہیں اور عبادت کے لئے مندروں میں داخل ہوجاتے ہو۔ حالاں کہ یہ طریقہ آپ کے مذہب میں بھی رائج ہے بلکہ آپ کے مذہب میں یہ کارنامہ سب سے زائد ہیں کہ مرد و عورت کو حالتِ احرام میں فقط بے سلی ہوئی دو چادروں پر اکتفا کر کے حج ادا کرتے ہیں اور یہی بے سلے کپڑے پہن کر دوڑتے بھی ہیں۔

جواب: آپ کو یا تو مسائل احرام کا علم ہی نہیں، نہ آپ نے مطالعہ کرنے کی زحمت فرمائی حالتِ احرام اور غیر احرام میں کپڑے ایک ہی ہوتے ہیں عورتوں کے کپڑے یکساں ہوتے ہیں اس میں کوئی تفاوت نہیں ہوتا رہی بات مردوں کی تو وہ کپڑے بغیر سلے تو پہنتے ہیں لیکن ستر نہیں کھولتا کیوں کہ ان کے پاس دو دو چادریں پانچ پانچ میٹر کی ہوتی ہیں ایک چادر ناف سے لے کر ساق(پنڈلی) تک ہوتی ہے دوسری چادر بدن پر رکھی جاتی ہے جس سے ستر کھولنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ستر علی حالہ مستور رہتا ہے، مکشوف نہیں ہوتا(ستر چھپا ہوا ہی ہوتا ہے کھلتا نہیں ہے۔)

سوال: اہل ایمان خود شرک و بت پرستی میں مشغول ہیں جیسا کہ دوران حج حجرِ اسود کو پوجتے ہیں اور پتہ نہیں کہ ان کی عورتیں ان پتھر سے کیا طلب کرتی ہیں؟

جواب: ارے نادان پنڈت؟(نعوذ باللہ) تیری عقل کس نے سلب کرلی کیا تمہیں معلوم نہیں کہ معبود کسے کہتے ہیں معبود اسے کہتے ہیں کہ جس کی عبادت کی جائے اور اس کی حمد و ستائش بھی کی جائے اور ہم اہل ایمان آج تک اس حجر اسود کی کبھی بھی ستائش نہیں کی ہے اور نہ معبود ہونے کی نیت سے اس کو پوجا ہے بلکہ ایک نسبت و محبت میں اس کو بوسہ دیتے ہیں۔ اس کی مثال یوں لیجئے کہ جب آپ گھر جاتے ہیں تو بیوی کو بوسہ دیتے ہیں وغیرہ ذلک۔ تو کیا یہ آپ کی معبودہ ہوگئی؟ لہٰذا جس طرح آپ محبت میں بوسہ دیتے ہیں اور معبود نہیں ہوتی ہیں اسی طرح ہم ان کی محبت و عشق میں بوسہ دیتے ہیں نہ کہ عبادت کرتے ہیں۔

مزید حجر اسود کو بوسہ دینے کا راز مدلل  یہاں موجود ہے

اعتراض صفا و مروہ کے درمیان سعی  پر۔

سوال: اسی طرح آپ ہم لوگوں کو بدنام کرتے ہیں کہ تم کندھے پر ڈنڈے اٹھا کر ہر بڑے مندروں میں جاتے ہو اور شرک کرتے ہو حالانکہ آپ خود ایسا عمل کرتے ہیں کہ دوران حج صفا مروہ کا بار بار چکر لگاتےہیں اور ہم تو فقط ایک ہی مرتبہ مندروں اور گنگاؤں میں داخل ہوتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ آپ سب سے زیادہ شرک کرتے ہیں۔

جواب: صفا و مروہ کے درمیان جو کہ خانہ کعبہ کا چوک ہے ہم اس لیے سعی کرتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی نظر رحمت کی بارش ہو اور اس میں یہ بھی راز ہے کہ مثلاً کوئی بادشہ کے پاس داخل ہو اور پھر باہر نکلے اور نہ جانتا ہو کہ بادشاہ میرے بارے میں کیا حکم کرے گا، منظوری فرمائے گا یا نہیں تو بادشہ کے دروازے پر بار بار آتا جاتا ہے ،اس امید سے کہ اگر اوّل دفعہ رحم نہ کرے گا تو دوسری بار میں رحم کرے گا۔

        بخلاف تمہارا خدا مورتی ہے کہ نہ تو سنتا ہے اور نہ کھاتا ہے اور نہ پیتا ہے اور نہ نفع و نقصان کا مالک ہے حتی کہ اگر اس کے بدن پر کتے پیشاب کرے تو بھگا بھی نہیں سکتا تو ایسوں کے پاس چکر لگانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔

اعتراض :حج میں حلق کروانے پر

سوال: جناب ہم کسی اہم پوجا پاٹ کے موقع پر اگر سر منڈاتے ہیں تو آپ ہنستے اور مذاق اڑاتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ دیکھو کافر کو؟ حالاں کہ یہ عمل آپ بھی کرتے ہیں اور دوران حج میں حلق کراتے ہیں اس سے یہ معلوم ہوا کہ آپ بھی کفر و شرک میں مبتلا ہیں۔

جواب: جناب ہم لوگ سر عبادت کے مقصد سے منڈواتے نہیں ہیں(البتہ اس پر اللہ اجر دیتا ہے) بلکہ بہت دنوں سے سر ننگا رہا ہے ہوسکتا ہے کہ بالوں کے نیچے ضرر دینے والی کنکریاں موجود ہوں جو آگے چل کر نقصان دے۔ دوسرا جواب ہمارے یہاں سر منڈوانا ضروری نہیں بلکہ بالوں کو چھوٹا کر لیا تو کافی ہے بخلاف تمہارے یہاں کہ سر جڑ سے منڈوانا ضروری ہے۔

اعتراض رمی جمار پر

سوال: تم یہ کہتے ہو کہ دودھ مٹی پھول مورتیوں پر چڑھا کر کفر و شرک میں مبتلا ہو حالاں کہ تم بھی اسی عمل کا ارتکاب کرنے والے ہو اور دوران حج رمی جمار کرتے ہو ہم تو صرف پھول،دودھ ہی چڑھاتے ہیں اور تم تو پتھر کو پوجتے بھی ہو اور پتھر چلاتے بھی۔

جواب: ارے پنڈت! تم پھول ، دودھ اور کیا کیا لے جاتے ہو تاکہ شیاطین کی پوجا کریں اور  منائیں لیکن ہم شیطان کے سر و جسم توڑنے کے لئے پتھر مارتے ہیں چڑھاتے نہیں گویا تم محبتاً و اعتقاداً یہ عمل کرتے ہو اور ہم ضرباً بغضاً و اعداءً یہ عمل کرتے ہیں۔ اب جناب پنڈت جی بات ذہن نشین ہوگئی کہ اور کوئی خلجان ہے ان شاء اللہ دندان شکن جوابات دئے جائیں گے۔

اعتراض:حرم میں جانوروں کے شکار نہیں کرنے پر

سوال: آپ کا مذہب کیسا ہے کہ کبھی تو جانوروں کا شکار کرنا حلال ہوتا ہے اور کبھی حرام ہوتا ہے مثلاً حرم کے بعض جانوروں کا شکار نہیں کرتے ہیں آخر  اس کی وجہ کیاہے؟

جواب: ہم لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ محبت ہے چنانچہ ان کی محبت میں ان کے یہاں کے جانوروں سے بھی محبت کرتے ہیں یعنی ہم اپنے محبوب کے کوچہ کے جانوروں کو باوجود یہ کہ گوشت کھانا جائز ہے  لیکن کچھ نہیں کرتے اور ان کی محبت میں چھوڑ دیتے ہیں۔

سوال: جب ان کی محبت میں ماکول اللحم جانور کو چھوڑ دیتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے تو اسی طرح چیل،کوے،بچھو، سانپ،چوہے،بھیڑیے،سگ دیوانہ، کو کیوں قتل کرتے ہیں اس کو بھی چھوڑ دو کیوں کہ وہ تمھارے محبوب کے کوچے کے باشندے ہیں۔

جواب: یہ جانور ضرر دینے والا اور عاشقانِ الٰہی  کو تکلیف پہنچانے والے اور کوچۂ محبوب سے روکنے والے ہوتے ہیں لہٰذا محبوب حقیقی خداوند تعالیٰ کی نظر میں اسی وجہ سے مردود ٹھہرے کہ اس کے عاشقوں کے لیے اس کے کوچہ سے مانع ہوتے ہیں اور یہ امر اس کو ناپسند ہے پس جو امر  محبوب کی نظر میں مبغوض ہو بالضرور اس کے عاشقوں اور محبوب کی نظر میں بھی وہ مبغوض ہوگا یہی وجہ ہے کہ اگر ان جانوروں کو حرم میں مار ڈالے تو اس پر کوئی تاوان ان کے بدلے میں دینا لازم نہیں ہوتا بلکہ کارِ ثواب رضائے محبوب ہے۔

حجر اسود کو بوسہ دینے کا راز

Standard

حجر اسود کو بوسہ دینے کا راز

       میں تبرعاً اس کا راز بھی بتلائے دیتا ہوں، حجر  اسود  کو بوسہ دینے کے راز کے متعلق میں کہہ چکا ہوں کہ اس کا منشاء عظمت و عبادت نہیں بلکہ محض محبت کا منشاء ہے، چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کو مجمع عام میں ظاہر کردیا، ایک بار آپ طواف کر رہے تھے اس وقت کچھ لوگ دیہات کے موجود تھے آپ رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو بوسہ کا ارادہ کیا تو حجر اسود کے پاس ذرا ٹھہرے اور فرمایا

“میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے جو نہ کچھ نفع دے سکتا ہے اور نہ ضرر دے سکتا ہے اور اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھتا تو میں بھی تجھے بوسہ نہ دیتا، کیا خشک معاملہ کیا ہے، حجر کے ساتھ، بھلا اگر مسلمان کا یہ معبود ہوتا تھا تو کیا اس سے بھی خطاب کیا جاتا کہ نہ تو نفع دے سکتا ہے، نہ ضرر پہنچا سکتا ہے۔(صحیح البخاری 1605)

 اس سے صاف معلوم ہوگی کہ اس تقبیل(بوسہ لینے) کا منشاء محض محبت کی وجہ سے ہے کہ حضور صلی اللہ  علیہ وسلم نے اس کو بوسہ دیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فضلہ بھی کسی جگہ گرا ہو تو ہم کو اس جگہ سے محبت ہوگی چہ جائیکہ وہ جگہ جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ لگے ہوں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ آپ کا دہن مبارک لگا ہو!!!

بامید آنکہ جانا روزے رسیدہ باشد

باخاک آستانش درایم جبہ سائی

       رہا کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کیوں بوسہ دیا؟ اس سوال کا کسی کو حق نہیں اور نہ ہم کو اس کی وجہ بتلانا ضروری ہے، ہاں اتنی بات یقینی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور عبادت و عظمت  کے بوسہ نہیں دیا، ورنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس بے باکی کے ساتھ “ لاَ تَضُرُّ وَلاَ تَنْفَعُ ” نہ فرماتے، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج شناس تھے جب انہوں نے حجر کے ساتھ یہ معاملہ کیا تو یقیناً اس تقبیل (بوسہ لینے) کا منشاء عبادت ہرگز نہیں اور تبرعاً اس کا جواب بھی بتالائے دیتا ہوں کہ ممکن ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہ حجر کے اندر تجلیت الٰہیہ کا بہ نسبت دوسرے حصص بیت کے زیادہ ہونا منکشف ہوا ہو، پس منشاء اس تقبیل کا تلبس زائد ہے تجلیات الٰہیہ سے اور جس چیز کو محبوب کے انوار سے تلبس ہو اس کا بوسہ دینا اقتضائے محبت ہے۔

(اشرف الجواب)

حجر اسود کو بوسہ دینے کی وجہ

Standard

ملحدین و زنادقہ مسلمانوں پر یہ اعتراض کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جیسے بت پرست  بتوں کی پوجا کرتے ہیں ویسے ہی مسلمان حجر اسود کی پوجا کرتے ہیں(نعوذ باللہ) کیوں کہ مسلمان حجرِ اسود کو بوسہ دیتے ہیں۔

جواب:حجر اسود کو بوسہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ تقبیل حجر عظمت سے نہیں بلکہ محبت سے ہے، جیسے بیوی بچوں کا بوسہ لیا کرتے ہیں، اگر بوسہ دینا عظمت کی دلیل ہے تو لازم آئے گا کہ ہر شخص اپنی بیوی کی عبادت کرتا ہے اور اس کا لغو ہونا بدیہی ہے، معلوم ہوا کہ تقبیل(بوسہ دینا) عبادت و تعظیم کو مستلزم نہیں، بلکہ کبھی محبت سے بھی تقبیل ہوا کرتا ہے، رہا یہ سوال کہ تم حجر اسود سے محبت کیوں کرتے ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ میرے گھر کی بات ہے، اس کے متعلق مخالف کو سوال کرنے کا حق نہیں، دیکھئے اگر کوئی شخص عدالت میں یہ مقدمہ دائر کردے کہ فلاں مکان میری ملکیت میں ہے تو اس سے اس پر ثبوت طلب کیا جائےگا، لیکن جب وہ ثبوت پیش کردے گا تو مخالف کو اس سوال کا حق نہیں کہ اچھا مکان تو تمہارا ہی ہے مگر بتلاؤ اس گھر میں کیا کیا سامان موجود ہے؟ یا کوئی شخص بیوی کا بوسہ لے تو اس سے یہ سوال تو ہوسکتا ہے کہ تم اس کا بوسی کیوں لیتے ہو؟ لیکن جب وہ بتلا دے کہ میں محبت کی وجہ سے بوسہ لیتا ہوں تو پھر اس سوال کا کسی کو حق نہیں کہ تم کو بیوی سے محبت کیوں ہے؟ اور رات دن میں کتنے اس کے بوسہ لیتے ہو؟

       اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس کی وجہ نہیں بتلا سکتے کہ ہم کو حجر اسود سے محبت کیوں  ہے؟ بلکہ مطلب یہ ہے کہ مخالفین کہ مخالفین کے اعتراض کا جواب اسی حد تک دینا چاہئے جہاں تک اس کا سوال کا حق ہے اور جو سوال ان کے منصب سے باہر ہو اس کا جواب نہ دینا چاہئے بلکہ صاف کہہ دینا چاہئے کہ تم کو اس سوال کا کوئی حق نہیں، مخالفین کا دماغ ہر بات کی حقیقت سمجھنے کے قابل نہیں امور دقیقہ (دقیق باتوں) کو ان کے سامنے نہ بیان کرنا چاہئے، بعض لوگ اس پر تعجب کرتے ہیں کہ وہ وجہ کون سی ہے جس کو ہم نہیں  سمجھ سکتے ہیں؟ آکر ہم بھی تو انسان ہیں، اگر باریک بات ہمارے سامنے بیان کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کو نہ سمجھ سکیں، میں کہتا ہوں کہ اگر ایسی بات ہے تو میں ایک ریاضی دان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اقلیدس کی کوئی شکل ایک گھس کھدے کو سمجھا دے جس نے اقلیدس کے مبادی و اصول موضوعہ کو کبھی نہ سنا ہو، یقیناً وہ اقرار کرے گا کہ میں ایسے شخص کو اقلیدس کی اشکال نہیں سمجھا سکتا، آخر کیوں؟ کیا وہ انسان نہیں؟؟  مگر بات وہی ہے کہ بعض امورمبادی و مقدمات کا سمجھنا ضروری ہوتا ہے، اس لئے اس کو وہی سمجھ سکتا ہے جس کے ذہن میں مبادی و مقدمات حاضر ہوں ہر شخص اس کو نہیں سمجھ سکتا اور یہ بالکل موٹی بات ہے مگر حیرت ہے کہ آج کل کے عقلاء کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی۔