سیکولرزم کی تباہ کاریاں اوراس سے بچنے کی تدابیر

Standard
سیکولرزم
کی تباہ کاریاں اوراس سے بچنے کی تدابیر
از:       (مولانا)
حذیفہ وستانوی
استاذ
جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم، اکل کوا، 
نندور بار
سیکولرزم، اصل میں لاطینی زبان کالفظ ہے، جسس
کا عربی میں ”علمانیة“ اور اردو میں ”لادینیت“ ترجمہ ہوتاہے۔ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کو اللہ رب العزت نے ایسے حیرت انگیز اور معجزانہ علمِ وحی سے مالامال
کیا تھا کہ جس کی روشنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی بعثت مبارکہ سے
لے کر قیامت تک آنے والے تمام فتنوں سے امت کو باخبر کردیا تھا، تاکہ امت ضلالت
اور گمراہی سے مکمل اجتناب کرے، الحاد اور بے دینی جو سیکولرزم کے نام سے اس وقت
دنیا میں فتنہ برپا کیے ہوئے ہے، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ روایت منطبق
ہوتی ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”دعاة علی ابواب جہنم من
اجابہم الیہا قذفوہ فیہا“ یعنی ایک زمانہ میں امت پر ایسا وقت آئے گا جس میں
شرپسندوں کے ٹولے جو جہنم کے دروازے پر کھڑے ہوں گے، انسانوں کو اور خاص کر
مسلمانوں کو اس کی طر ف بلائیں گے، جو ان کی بات تسلیم کرلے گا، وہ اسے اس میں
یعنی جہنم میں جھونک دیں گے، قربان جائیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعبیر
بیان پر، کتنے مختصر الفاظ میں کتنی عظیم خبردی، لفظ ”دعاة“ کے ذریعہ بے دین ملحد،
زندیق، سیکولر دین دشمنوں کی کثرت کی طرف اشارہ کیا، جس کا دنیا مدتوں سے مشاہدہ
کررہی ہے، غالب گمان یہ ہے کہ اس حدیث سے اسی سیکولرزم کے داعیوں کی طرف اشارہ ہے،
لہٰذا ہم سردست سیکولرزم کے بارے میں مختصر معلومات پیش کرنے جارہے ہیں، امید ہے
کہ دل کے آنکھوں سے اس کا مطالعہ کر کے سیکولرزم کے فتنے سے اپنے آپ کو اور پورے
معاشرہ کو بچانے کی فکر کریں گے،
اللہم وفقنا لما تحب وترضی واجعل آخرتنا خیرا
من الاولیٰ
۔
سیکولرزم کیا ہے؟
 سیکولرزم در اصل ایک ماسونی یہودی تحریک
ہے، جس کا مقصد حقوقِ انسانی، مساوات، آزادی، تحقیق و ریسرچ، قانون دولی (
International Law)
اور تعلیم کے نام پر، دین کو زندگی کے تمام شعبہ جات حیات سے نکال دینا، اور مادیت
کا گرویدہ بنا کر، روحانیت سے بے زار کر دینا ہے، یہ کہہ کر کہ دین کی پیروی
انسانی آزادی کے منافی ہے، لہٰذا سیاست اور دین، معیشت اور دین و معاشرت اور دین
یہ سب الگ الگ ہیں ۔ دین، طبیعت اور فطرت کے خلاف ہے، لہٰذا کسی بھی دین کی پیروی
درست نہیں، ان کی صورت حال ایسی ہی ہے، جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے:
و
اذا قیل لہم تعالوا الی ما انزل اللہ و الی الرسول رایت المنافقین یصدون عنک صدودا
۔
(سورة النساء: پ۵/۶۱) یعنی جب ان سے کہا جاتاہے آجاوٴ اس چیز کے طرف جو اللہ نے
نازل کی ہے ( یعنی دین اسلام) اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی (تعلیمات) کی طرف
(یعنی شریعت پر مکمل طور پر عمل پیرا ہونے کی طرف تو (اے مسلمان) تو دیکھے گا،
منافقوں کو کہ وہ لوگوں کو آپ (یعنی شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم) پر عمل کرنے
سے روک رہے ہوں گے۔
یہاں قرآن کریم کا مضارع کا صیغہ ”یصدون
لا نا اس بات کی طرف اشارہ ہے، کہ یہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک
خاص نہیں بلکہ استمرار کے ساتھ ہر زمانہ میں ایسا ہوگا، اور پھر آگے”
صدودا“کہہ
کر اشارہ کیا کہ وہ اس پر مصر بھی ہوں گے۔
سیکولرزم کا آغاز کہاں اور کیسے
سیکولرزم دراصل یورپ کی پیداوار ہے، اس کی وجہ
یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب اسلام نے آکر علم کے دروازے کھولے اور اسلام کا اثر
ورسوخ مشرق سے نکل کر مغرب میں غرناطہ اور بوسنیا تک پہنچا، تو اہل مغرب کی آنکھیں
کھلیں، اس لیے کہ سولہویں صدی عیسوی تک یورپ میں کنیسا اور چرچ کو مکمل اثر و رسوخ
حاصل تھا، جب سترھویں صدی میں اہلِ یورپ نے مسلمانوں کی علمی آزادی اور ترقی کو
دیکھا اور عیسائی پادریوں اور بادشاہوں کی تنگ نظری اور تعصب کو دیکھا اور اس کے
نتیجہ میں علمی تحقیقات پر پابندی اور کوئی رائے پیش کرنے والے کو ظلم کا شکار
ہوتے دیکھا تو انہیں ایسا محسوس ہوا کہ عیسائیت ہی دراصل ہماری ترقی کے لیے روڑا
اور رکاوٹ ہے، لہٰذا سترھویں صدی میں اہلِ مغرب نے مذہب سے بے زاری کا اعلان
کردیا، اور یہ پسِ پردہ دنیا کی خفیہ ترین تخریبی تحریک ماسونیت کی کارستانیوں اور
سازشوں کا نتیجہ تھا، اس طرح جب ان سیکولرزم کے حاملین کو کامیابی ملی، تو انہوں
نے اعلان کیا کہ ”اب عقل کو آزادی ہوگی اور مذہب کے قید وبند سے انسان آزاد ہوگا
اور طبیعت اور نیچریت کا بول بالا ہوگا“۔
جب یورپ میں سیکولرزم کو غلبہ حاصل ہوا، تو اب
وہ دنیا پر راج اور سلطنت کے خواب دیکھنے لگے، اس طرح انہوں نے مشرق کا رُخ کیا
اور ۱۷۸۹ء میں مصر پر حملہ کیا اور انیسویں صدی کے آنے تک پورے مشرق کو اپنی لپیٹ
میں لے لیا، کچھ ناعاقبت اندیش، مادہ پرست مسلمانوں کو بھی اپنے چنگل میں لے لیا۔
 مشرق و مغرب میں سیکولرزم کے علمبردار
سیکولرزم کو پھیلانے میں جن بدباطن اور کج فکر،
لوگوں نے اہم رول اور کردار ادا کیا، ان میں سے، مغرب میں ڈارون جس نے تحقیق کے
نام پر ”نظریہٴ ارتقاء“ کی بنیاد ڈالی، جو دنیا کا سب سے بڑا فریب شمار کیا جاتا
ہے، اسی طرح فرائیڈ نے”نظریہٴ جنسیت“ پیش کیا، اسی طرح ڈارکا یم نے ”نظریہٴ عقلیت
“پیش کیا، جان پول سارترنے ”نظریہٴ وجودیت “کی تحدیدکی، پھرآدم اسمٹھ نے ”کیپٹل
ازم“سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادڈالی، کارل مارکس نے ”کمیونزم“کی بنیادڈالی،
جوپچھلے تمام مادی افکار کا نچوڑاورخلاصہ تھا اور مشرق میں کمال اتاترک، طہٰ حسین،
جمال عبدالناصر، انور سادات، علی پاشا، سرسید، چراغ علی، عنایت اللہ مشرقی، غلام
پرویز، غلام قادیانی وغیرہ نے انہیں افکار کو مشرق میں عام کرنے کا بیڑا اٹھایا،
اوراب اسی کو گلوبلائیزیشن یعنی”عالمگیریت“کانام دیدیاگیاہے، دیکھنااب کیاہوتاہے،
اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین یارب العالمین!
سیکولرزم کا ہدف
سیکولرزم کا اصل ہدف امتِ مسلمہ کو موجودہ
دورمیں اسلام سے بے زارکر کے، مادیت سے وابستہ کرناہے، تاکہ مغرب کی بالادستی،
برابراس پر باقی رہے، اس لیے کہ اسلامی فکر، اسلامی روحانیت اوراسلام سے وابستگی
یہی مسلمانوں کی کامیابی اوربالادستی کی شاہِ کلید ہے، لہٰذامسلمانوں کو اپنی پوری
توجہ، ایمان اور اس کے تقاضوں پرمرکوزکرناچاہیے، نہ کہ مادیت کے مکروفریب کے جال
میں پھنسنا۔ اللہم انانسئلک العفو والعافیة فی الدین و الدنیا و الاخرة۔
سیکولر فکررکھنے والوں کی اقسام وانواع
سیکولرزم سے متأثرافرادکوتین قسموں میں تقسیم
کیاجاسکتاہے:
(۱)      پہلی
قسم: ان کافراوربے دین لوگوں کی، جوصراحةًاوراعلانیةً اسلام کا ہی نہیں،کسی دین کا
انکارکرے، اگروہ مسلمان ہو اورایسی بات کرے تو مرتدشمارہوگا۔
(۲)      دوسری
قسم:ان منافقوں کی، جونام کے مسلمان ہویعنی بظاہراسلام کو تسلیم کرتے ہوں، مگر دل
میں کفرکوچھپائے ہوئے ہوں، ان کا پورامیلان اندر سے اسلام مخالف، بلکہ اسلام دشمن
نظریات کی جانب ہوں، اس وقت مسلم معاشرہ میں یہ لوگ بکثرت پائے جاتے ہیں، چند
نشانیوں سے ان کو پہچانا جاسکتا ہے، وہ نشانیاں یہ ہیں :
(الف)   وہ
اپنے آپ کو مصلحِ ملت، مفکرِاسلام یامجددٹھہراتے ہوں، حالاں کہ اسلام اور اسلام کی
بنیادوں کوڈھانے کی کوشش  کررہے ہیں، ان کی حالت اسلامی تعلیمات
اورمطالبات کے بالکل برعکس ہو، یہی لوگ اسلام اورمسلمانوں کے لیے سب سے زیادہ
نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔
(ب)    وہ
یہ آواز لگاتے ہوں کہ اسلامی تعلیمات، عصرِحاضرمیں جاری کرنے کے قابل نہیں، اس لیے
کہ (العیاذباللہ)وہ فرسودہ ہیں، وہ قابلِ اعتبار نہیں، لہٰذاعالمی قانون کو مسلمان
تسلیم کرلے، اس لیے کہ (العیاذباللہ)وہی مسلمانوں کے لیے شریعتِ اسلامیہ کے مقابل
زیادہ نفع بخش اورمفیدہے۔
(ج)     وہ
اباحیت پسندی کے شکارہوں،حرام کو حلال کرنے اورحلال کوحرام کرنے کے درپے ہوں،
اوراس کواپنے گناہ کی سنگینی کا احساس بھی نہ ہو۔
(د)      دین
پر عمل کرنے والوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہوں اوردینی شعائرمثلاً،ڈاڑھی،
ٹوپی، کرتہ وغیرہ کا مزاق اڑاتے ہوں اوردیندارکوکم عقل تصور کرتے ہوں۔
(ھ)     اس
کے فکری رجحان کی کوئی سمت متعین نہ ہو، جدھرکی ہواادھرکا رُخ، اس کی طبیعت ثانیہ
ہو، مثلاًجب تک روس کوغلبہ تھاکمیونزم کے حامی، اور اب امریکہ کو غلبہ حاصل ہے، تو
سرمایہ داریت اورجمہوریت کے شیدائی ہوں۔
(۳)     تیسری
قسم: ان مسلمانوں کی ہے، جوسیکولرزم اورجمہوریت،حقوقِ انسانی،آزادیٴ نسواں،آزادیٴ
رائے،دین اورسیاست میں تفریق جیسے اصطلاحات سے متأثرہوں،جن کو آج کل مغربیت زدہ
مسلمان، کہاجاتاہے، یہ اسلام کو مانتے ضرور ہیں، اس کی حقیقت کے بھی قائل ہیں،
مگردینی علم سے دوری یاکمی کی وجہ ان خوشنمااصطلاحات سے متأثرہوگئے ہوں۔
سیکولرزم کو عام کرنے کے اسالیب
اسلام دشمن طاقتوں نے خاص طورپر صہیونی، صلیبی
اشتراک، جس کوماسونیت بھی کہاجاسکتاہے، سیکولرزم کومسلمانوں میں عام کرنے کے مختلف
طریقے اپنائے۔
(۱)      الیکڑانک
اورپرنٹ میڈیا کے ذریعہ یہ پروپیگنڈہ کرنا کہ اسلام، یہ دور انحطاط کی کھوج ہے،
اور اس کی تعلیمات، روایات قدیمہ کی حامل ہے، (العیاذ باللہ) مادی ترقی کے دور میں
قابل عمل نہیں رہا، حالاں کہ ایسا ہرگز نہیں، الحمدللہ! کسی بھی زمانہ میں انسان
کی حقیقی ترقی، جس کو روحانی ترقی سے بھی تعبیر کیا گیا ہے، اس کا حامل اگر ہے تو
یہی اسلام، اس لیے کہ انسان کی حقیقی ترقی یہ ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کو راضی
کرلے ، اور دنیا میں اس کا تقرب حاصل کرلے، قرآن کا اعلان ہے ”
ان
اکرمکم عنداللّٰہ اتقٰکم
“ (سورة الحجرات:پ۲۶، آیت۱۳)تم میں سب سے زیادہ مکرم و معزز
و برگزیدہ اللہ رب العزت کے نزدیک وہ ہے، جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو یعنی گناہوں
سے اسی طرح لوگوں کو اور مخلوق کو تکلیف دینے سے مکمل اجتناب کرتا ہو، یہ ہے اصل
ترقی کا زینہ۔
(۲)      العیاذ
باللہ یہ پروپیگنڈہ کرنا کہ اسلام خونی مذہب ہے، یعنی اس کی تاریخ ظلم و جور سے
بھری ہوئی ہے، حالاں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے، اگر تاریخ کا غائرانہ مطالعہ کریں،
تو معلوم ہوگا کہ پچھلے سو سال میں جمہوریت اور سیکولرزم کے نام پر دنیا میں جتنا
ظلم ہوا اور قتل و غارت گیری ہوئی، اسلام میں، اس کی ایک بھی نظیر نہیں ملتی، ایک
سروے کے مطابق ”اوریا مقبول جان“ مشہور صحافی تحریر فرماتے ہیں کہ پچھلے سو سال
میں تقریباً سترہ کروڑ انسانوں کو جمہوریت کے بھینٹ چڑھا دیا گیا، اس سے سولہویں
صدی میں ریڈ اینڈینز کو سو ملین کی تعداد میں نئی دنیا کی دریافت کے نام بے قصور
موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، غرناطہ میں تیس لاکھ مسلمانوں کو صلیبیت کے نام پر
قربان کردیا گیا، فلسطین میں لاکھوں مسلمانوں اور یہودیوں کو عیسائیوں نے بلاجرم
قتل کردیا، جب کہ اسلامی تاریخ میں مسلمان امراء کی فراخ دلی، رعایا سے ہمدردی اور
انصاف کوئی پوشیدہ چیز نہیں، نیک مسلمان سلطانوں اور امراء نے تو ظلم کیا ہی نہیں،
بل کہ فاسق و فاجروں بھی نے کیا بھی ہوگا، تو وہ اس ظلم کے سویں حصہ کیا، یا
ہزارویں حصہ کے برابر بھی نہیں ہے، ہماری تاریخ خونی اور ظالمانہ نہیں، اگر
ظالمانہ تاریخ ہے، تو تاریخ، انہی سیکولرزم کی نعرہ دینے والوں کی ہے، مگر اپنا
عیب چھپانے کے لیے وہی اپنا قصور مسلمانوں پر تھوپ دیا ”
فانتظروا انا معکم منتظرون“۔
(سورہٴ یونس:پ۱۱،آیت۳)
(۳)     قرآن
و حدیث کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ کرنا کہ وہ ایک خاص جماعت او ر نسل کے لیے نازل
کیا گیا تھا، یا یہ کہنا کہ قرآن و حدیث کی، العیاذ باللہ کوئی حقیقت نہیں ، وہ تو
انسان ہی کا مرتب کردہ ہے، جب کہ حقائق اس کا صراحت کے ساتھ انکار کرتے ہیں، قرآن
کا اعلان ہے ”
کتاب
اَنزلنٰہ الیک
۔
(سورة ابراہیم:پ۱۳،آیت۱)
 و
ما ینطق عن الہوی ان ہو الا وحی یوحیٰ
“ وغیرہ۔(سورة النجم:پ۲۷،آیت۲،۳)
(۴)     ایمان
بالغیب کا انکار کرنا اور اس کا مزاق اڑانا اور یہ کہنا کہ نیچریت اور طبیعت اس کو
تسلیم نہیں کرتی، اور اس کے بارے میں یہ کہنا کہ ملائکہ، جن، جنت، دوزخ ،حساب،
برزخ، قدر، معراج، معجزات، انبیاء وغیرہ، یہ سب محض خرافات ہیں، اس کی کوئی حقیقت
نہیں، حالاں کہ قرآن نے پہلے پارے کے پہلے ہی رکوع میں متقی مسلمانوں کا وصف بیان
کرتے ہوئے کہا ”
یوٴمنون
بالغیب

(سورة البقرة:پ۱، آیت۳) وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔اور اس طرح نقل کو عقل پر ترجیح
کے قائل ہیں۔
(۵)      مسلمان
معاشرہ میں موجود اخلاقی قدروں کو ملیامیٹ کرنا اور اباحیت پسندی کو فروغ دینا،
تعلیمی نصاب میں ایسا مواد سمو دینا، جس سے ابناء قوم طفولیت ہی سے ایمان باللہ،
ایمان بالقیامة سے محروم رہے ،اور جنسیت، مادیت، فیشن پرستی کا دلدادہ ہو جائے،
ماحول ایسا بنا دیا جائے کہ عشق بازی، حیاسوزی، نوجوانوں کی عادت بن جائے، ایسی
ایسی فلمیں اور سیریلیں بنائی جائیں، جس میں مار پیٹ، لڑائی، جھگڑا، فتنہ، فساد،
عشق و محبت، بداخلاقی و بدکرداری کو فروغ حاصل ہو ، حالاں کہ بداخلاقی، بدکرداری،
عشق بازی، فتنہ فساد سے، تعلیمات اسلامیہ مکمل اجتناب کا درس دیتی ہیں۔
(۶)      توحید
کے مقابلہ میں روشن خیالی، مزعوم اعتدال پسندی کو جس کو دوسرے لفظوں میں 
Modernism کہاجاسکتا
ہے، ہر طبقہ میں عام کرنے کی مکمل کوشش کی جارہی ہے، جو سراسر اسلامی تعلیمات کے
منافی اور معارض ہے۔
(۷)     اسلام
کے خلاف جاری فکری یلغار کو ثقافت اور تبادلہٴ ثقافت کا نام دیا جارہا ہے، تاکہ
فکری یلغار کا احساس زندہ نہ ہو، اور مسلمان مِن و عَن مغربی ثقافت کو دلجمعی کے
ساتھ قبول کرلے۔
(۸)     بلادلیل
و برہان اسلام کو ”دہشت گرد“ اور مسلمانوں کو متعصب اور ظالم، قاتل و سفاک اور بے
رحم ثابت کیا جارہا ہے، تاکہ لوگ اسلام اور مسلمان سے متنفر رہے، اور اسلام کو
فروغ حاصل نہ ہو۔
(۹)      شراب،
جوا، سود اور محرمات کو خوشنما اور نئے نئے ناموں سے مسلمانوں میں متعارف اور عام
کیا جارہا ہے، تاکہ حلال و حرام کی تمیز باقی نہ رہے، اور مسلمان بے دھڑک اس کی
خرید و فروخت اور استعمال میں مشغول ہو جائے۔
(۱۰)     اسلام
اور اس کی تعلیمات مثلاً حدود، تعزیرات وغیرہ اور اسلامی شخصیات، مثلاً رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ، مجاہدین وغیرہ سے استہزاء اور ان کی زندگیوں کو توڑ
مروڑ کر پیش کرکے مشکوک کرنا وغیرہ، اللہ ان ملعون حرکات کرنے والوں کو غارت کرے
اور مسلمانوں کے دلوں کو اسلام ، اسلامی شخصیات اور اس کی تعلیمات کی محبت سے
لبریز کردے۔ آمین یا رب العالمین!
(۱۱)     مغربی
باطل نظریات کو خوب عام کرنا، اور ہر ممکن یہ کوشش کرنا کہ ان باطل نظریات کے
حاملین کو علم و تحقیق کے باب میں بلند ترین مقام دینا، اور یہ کہنا کہ یہی لوگ
حقیقت میں دنیائے علم و تحقیق کے درخشندہ ستارے ہیں اور انہوں نے دنیا پر بڑا
احسان کیا، حالاں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے، کیوں کہ علم و تحقیق کے نام پر انہوں
نے دنیا کو گمراہ کیا، مثلاً ڈارون ،فرائیڈ، مارگو لیٹھ، کارل مارکس، آدم اسمیٹھ،
دور کایم، جان پول، وغیرہ یہ ائمہ ضلال تو ہوسکتے ہیں، مگر محسن نہیں ہوسکتے،

لعنة علیہم و الملائکة والناس اجمعین
!
سیکولرزم کے بارے میں شرعی فیصلہ
 علمائے اسلام اور فقہاء عظام نے سیکولرزم
کو ایک مستقل مذہب قرار دیا ہے، جس کو ”دہریت“ کہا جاسکتا ہے، لہٰذا وہ کفر صریح
ہے، اور مسلمانوں کو اس کا مقابلہ کرنا ضروری ہے، مسلمانوں میں سیکولرزم فکرکے ان
حاملین کو منافقین کہا جائے گا، جو اسلامی تعلیمات کا انکار کرے، سیکولرزم کو حق
بجانب تصور کرے، اسلامی محرمات کو حلال گردانے۔
سیکولرزم کے دنیا پر اثرات
سیکولرزم نے سب سے زیادہ نقصان عالم اسلام کو
پہنچایا، اس لیے کہ سیکولر فکرکے حاملین نے، جس میں کمال اتاترک جیسے لوگ شامل
ہیں، خلافتِ اسلامیہ کے سقوط کے سبب بنے، اور عظیم دولت عثمانیہ اسلامیہ کو تقسیم
در تقسیم سے دوچار کیا، یہاں تک کہ وہ پچاس حصوں میں تقسیم ہوگئی، اسرائیل کا
ناپاک وجود اسلامی ریاستوں کے بیچ عمل میں آیا۔ دنیا میں فحاشی، بدکاری، اور ہر
برائی کو پھیلانے کے راہیں ہموار ہوگئیں، اور پوری دنیا کو جمہوریت اور عالمگیریت
کے نام پر جہنم کدہ بنا دیا گیا۔
اسلام کے غلبہ کی راہیں کیسے ہموار ہوسکتی ہیں؟
ہم مسلمان ،ہیں ہمارا دین، دین برحق ہے ہمارا
رب اللہ ہے، جو قادر مطلق مالک الملک الہ واحد اور ذوالجود والکرم ہے اور ہمارے
رسول خاتم النبیین سید المرسلین ہیں، اور ہماری تعلیمات ہر زمانہ میں انصاف امن
وسلامتی کی ضامن ہیں، اسی کو حق ہے کہ وہ دنیا پر قیادت وسیاست کرے، مگر ہم نے اس
کی قدر نہ کی ذلت ومسکنت کے شکار ہوئے، اب ہمیں کرامت اور غلبہ کیسے دوبارہ ہوسکتا
ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، تو آئیے ہم اسی پر روشنی ڈالتے ہیں۔
(۱)      سب
سے پہلے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ایمان میں رسوخ پیدا کریں کیوں کہ قرآن کا
اعلان ہے”
وانتم
الاعلون ان کنتم مو
ٴمنین“۔(آل عمران:۱۳۹) تم ہی سر بلند رہو گے اگر
موٴمن رہو۔ موٴمن کس کو کہتے ہیں؟ دل وجان سے اسلام کو تسلیم کر کے، اس پر عمل
کرنے اور اس پر سب کچھ قربان کردینے کا نام ہے ایمان اور موٴمن ہونا۔
(۲)      کتاب
اللہ اور سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہر حالت میں ہم مضبوطی کے ساتھ تھام
لیں، یعنی ہمارا ہر قول اور ہر عمل قرآن وسنت کے منشاء کے مطابق ہوجائے، حدیث میں
ہے ”
ان
تمسکتم بہما لن تضلوا بعدی ابدا
“۔
(۳)     تقویٰ،
یعنی ہرحالت میں اللہ سے ڈرنے لگ جائیں، اور ہر طرح کے منکر اور حرام سے مکمل
اجتناب کریں، اور ہر فرض وسنت کو اپنی زندگی کا لازمی جز بنائیں۔
(۴)     اسلا
می تعلیمات کوخوب عام کریں، اور یقین رکھیں کہ کامیابی اسی پر عمل کرنے میں ہے نہ
کہ کسی اور چیز میں۔
(۵)      دعا
کا التزام کریں، اپنے لیے پوری امت کے لیے، رو رو کر اللہ کے دربار میں دعائیں
کریں، خاص طور پر یہ دعا کریں کہ اللہ امت کو منافقین کے شر سے نجات دے اور بچائے
اور اسلام پر ثابت قدم رکھے۔
(۶)      غفلت
سے بیدار ہو، اور دشمنوں کے مکر وفریب سے اور ان کے سازشوں سے واقف ہوں اور اس سے
بچنے کی تدابیر کریں، اللہم اجعل کیدہم فی تضلیل۔
(۷)     اس
وقت سب سے بڑی ضرورت اسلامی تعلیمات سے واقف ہونا ہے، لہٰذا اس جانب توجہ دیں، تا
کہ حلال حرام کی تمیز ہو سکے، علماء سے اپنے مسائل میں رجوع کریں، اور اپنے بچوں
کی اسلامی تربیت کی فکر کریں۔
(۸)     ٹیلی
ویژن کی نحوست سے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو، کوسوں دور رکھیں ،فلم، کھیل
کود اور فضول چیزوں میں وقت صرف نہ کرکے اللہ کی طرف متوجہ ہوں۔
اللہ ہماری ہر طرح کے شر سے حفاظت کرے اور ہر
طاعت کے کرنے کی توفیق دے اور پوری امت کو اسلام سے وابستہ کردے۔آمین یا رب
العالمین!
***

 

 مأخوذ

اسلام اور آزاد خیالی مکمل

Standard

اسلام …………….. اور آزاد خیالی

ایک مباحثہ کے دوران میرے ایک رفیق نے کہا کہ تم آزاد خیال نہیں ہو……

میں: وہ کیسے؟

وہ:کیا تم ایک خدا کے وجود پر عقیدہ رکھتے ہو؟

میں: ہاں! یہ میرا ایمان ہے۔

وہ: اور پھر اس کے لئے نمازیں بھی پڑھتے ہو اور روزے بھی رکھتے ہو؟

میں: جی ہاں۔

وہ: تو پھر آپ آزاد خیال (Free Thinker) نہیں ہیں۔

میں: آخر یہ کیوں؟

وہ: آپ ایک نا معقول اور خرافات چیز پر عقیدہ رکھتے ہیں جس کا کوئی وجود نہیں ہے۔

میں: آپ اور آپ کے ہم خیال کس چیز پر عقیدہ رکھتے ہیں۔ آپ کے خیال میں اس کائنات کا اور زندگی کا خالق کون ہے؟

وہ: فطرت(Nature)

میں: آخر یہ فطرت کیا چیز؟

وہ: فطرت ایک لا محدود مخفی طاقت ہے۔ البتہ حواسِ خمسہ انسایہ کے لئے یہ ممکن ہے کہ اس کے مظاہر و آثار کا ادراک کرسکیں۔

آخر میں مَیں نے کہا کہ میں سمجھ گیا۔ آپ اپنے اس بیان کے ذریعہ ایک نامعلوم مخفی،قادر مطلق پر عقیدے سے ہٹا کر ایک نامعلوم قوت پر ایمان لانے کی دعوت دے رہے ہیں، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر میں اپنے خدا کا انکار کیوں کروں؟ اسی طرح کے ایک دوسرے نامعلوم القوۃ خدا بلکہ جھوٹے خدا کی خاطر۔ آپ مجھ سے میرا وہ خدا کیوں چھیننا چاہتے ہیں جس کی عبدیت میں مجھے امن، سکون اور سلامتی و ایمان جیسی لازوال نعمتیں ملتی ہیں۔ اور اس کے بدلے میں مجھے ایسا خدا دینا چاہتے ہیں جو نہ تو میری کسی بات کا جواب دے سکتا ہے اور نہ امن و سکون فراہم کرسکتا ہے۔

            مختصراً یہ ان تمام ترقی پسندوں کاعقیدہ ہے، جو آزادئ خیال کی گفتگو کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک ، آزادئ خیال، ایک خدا کے انکار کے مترادف ایک لفظ ہے لیکن کسی صورت میں بھی اسے آزادئ خیال نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ تو الحاد پرستی ہے۔ جس کی بیناد پر عمارت الحاد کی تعمیر کرتے ہوئے وہ لوگ اسلام پر الزام تراشی کرتے ہیں، حالانکہ انکارِ خدا کے معنی میں آزاد خیالی کو اسلام سختی سے منع کرتا ہے کیوں کہ اسلام الحاد کا دشمن ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آزاد خیالی اور الحاد دونوں ہم معنی لفظ ہیں اور ایک ہی چیز ہیں اور کیا الحاد درحقیقت آزاد خیالی کی پہلی شرط ہے۔ معاملہ اصلاً یوں ہے کہ مغرب کے آزاد خیالوں کی تاریخ سے غلط طور پر متاثر ہو کر یہ لوگ اس حقیقت کی طرف نظریں دوڑاتے ہیں جب کہ کچھ مقامی اسباب و وجوہ کی بنا پر الحاد کا پروپگنڈہ یورپ میں ہوا تھا لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ یہی تاریخ دینا میں ہر کہیں دہرائی جائے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مسیحیت کا وہ تصور جو یوروپ میں اہل کلیسا نے پیش کیا تھا اور اہلِ علم کے ساتھ جو انسانیت سوز برتاؤ انہوں نے کیا تھا مثلاً علم و سائنس کو دیس نکالا دینا، اہل علم اور سائنسدانوں کو طرح طرح کی سزائیں دینا، اوہام و خرافات،جھوٹ اور  لغو باتوں کو کلامِ الٰہی کہہ کر عوام کو اس پر عمل کی دعوت دینا وغیرہ نے یوروپ میں آزاد خیالوں کے لئے الحاد کا راستہ ہموار کیا تھا، ایسی صورت میں یوروپ کے دانشوروں کے لئے ضروری ہوگیا تھا کہ دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب نہایت صفائی سے کریں، یا تو فطری طور پر ایک خدا پر عقیدہ رکھیں یا سائنس کے علمی و عملی تجربات و مشاہدات پر ایمان لے آئیں۔

یوروپ کے دانشوروں نے فطرت پرستی کے نظریہ میں ایک طرح کی نجات محسوس کی تھی جس کے ذریعہ مذکورہ بالا فریب کے جال سے بچ سکتے تھے۔ اس لئے انہوں نے کلیسا سے صاف صاف کہہ دیا کہ “تم اپنے اس خدا کو لے جاؤ جس کے نام پر تم ہمیں غلام بنائے ہوئے ہو، گران بار ٹیکسوں کے بوجھ تلے ہمیں دبائے ہوئے ہو۔ تمہارے ان خداؤن پر ایمان لانے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم زاہد و درویش ہوجائیں گے، تارک الدنیا راہب ہوجائیں گے اس لئے ہم ایک نئے خدا پر ایمان لارہے ہیں، جس کے اندر معبودِ اول کی اکثر خوبیان موجود ہوں گی لیکن اس کے لئے کوئی گرجا(church) نہ ہوگا جو لوگوں کو غلام بنائے اور نہ ہی اس نئے دین کی طرف لوگوں پر اخلاقی، فکری اور مادی قسم کی کوئی پابندی ہوگی، جیسا کہ تمہارے دین میں ہے۔ بلکہ ہم اس کی وسعتوں میں ہر طرح کی قید سے آزاد ہوں گے۔

مذکورہ بالا بیان کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ اسلام میں اس طرح کی کوئی ایسی چیز نہیں پائی جاتی ہے جو الحاد کی طرف رہنمائی کرتی ہو۔ اور نہ ہی عقیدہ کو سمجھنے کے سلسلہ میں کوئی مشکل چیز در پیش ہے جو ذہن کو پریشان کرے۔ مثلاً خدا ایک ہے وہی ساری کائنات کا خالق ہے، اور پھر ایک دین اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، وہ خدا اکیلاہے، اس کا کوئی ساجھی و شریک نہیں ہے، اس کے فیصلوں پر کوئی مواخذہ کرنے والا نہیں ہے۔” یہ اتنا واضح اور سادہ مفہوم ہے کہ کوئی بھی شخص حتیٰ کہ نیچری اور ملحد بھی بڑی مشکل سے اس کا انکار تو درکنار اس میں شبہ بھی کرسکتا ہے۔

اسلام میں اس طرح کے مذہبی لوگ نہیں ہیں جیسے یوروپ میں پوپ و پادری ہوتے ہیں، بلکہ یہاں مذہب ساری نوع انسانی کی مشترکہ میراث ہے۔ اپنی فطری، ذہنی اور روحانی صلاحیتوں اور ضرورت کے مطابق ہر شخص اس چشمہ سے سیراب ہو سکتا ہے۔ اسلام میں سب مسلمان برابر ہیں۔ اس میں زندگی کی بنیادی ضرورتوں اور معیار کارکردگی کی روشنی میں ہر شخص کے درجے متعین ہیں۔ا لبتہ اللہ کی نظروں میں سب سے معزز و محترم وہ لوگ ہیں جو متقی و پرہیز گار ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انجینئر ہے یا مدرس، کوئی فنکار ہے یا کارخانہ کا مزدور، کیوں کہ مذہب صنعتوں اور پیشوں کی طرح کوئی پیشہ نہیں ہے کہ لوگ اپنے پیشوں کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام میں پیشہ ور پادری نہیں ہوتے ہیں۔ چنانچہ عبادات پنجگانہ وغیرہ کی کاروائیاں پیشہ ور مذہبی شخصیتوں کی مداخلت کے بغیر بحسن و خوبی انجام پذیر ہوتی ہیں۔

البتہ یہ ضروری ہے کہ کچھ علوم فقہیہ اور مسائل شرعیہ کے ماہر ہوں کہ یہی علوم امور عامہ کی بنیاد ہیں تاکہ معاملات کے فیصلوں میں آسانی ہو تاہم ان اسلامی  علوم کے ماہرین اور فقہاء کا مرتبہ دنیا کے دوسرے ملکوں ہی کی طرح ہوگا۔ انہیں اپنے علمی اعزاز کی بنا پر عوام پر فوقیت اور برتری حاصل نہ ہوگی اور نہ ہی درجہ واری اعتبار سے کوئی امتیاز حاصل ہوگا۔ بلکہ ان کی حیثیت صرف ایک قانونی مشیر کی ہوگی (جیسا کہ سلیمان بن عبد الملک کے دورِ حکومت میں عمر بن عبد العزیزؒ خلیفہ مذکور کے مشیر کی حیثیت سے کام کرتے تھے) اور اگر کچھ لوگ ایسے ہوں بھی جو اپنے آپ کو علامہ دہر اور مفتی اعظم کہتے ہوں، تو اپنے منھ میاں مٹھو  بناکریں۔ بہر حال انہیں عوام پر کسی قسم کا کوئی غلبہ حاصل نہ ہوگا۔ صرف قانونی ہی دائرہ تک ان کی سرگرمیاں محدود ہوں گی امور عامہ میں انہیں دخل اندازی کا کچھ بھی اختیار نہ ہوگا۔ مثلاً

“جامعہ ازہر مصر” ایک دینی درسگاہ ہے لیکن اسے قطعی یہ اختیار نہیں کہ اہل علم و فضل کے جلانے یا انہیں آزمائشوں میں مبتلا کئے جانے کا کوئی حکم دے ہاں اسے صرف اتنی گنجائش ہے کہ کسی شخص کے اپنے ذاتی ںظریہ مذہب اور فہم دین پر تنقید کرسکتی ہے یعنی تفہیم و تنقیح میں جامعہ ازہر آزاد ہے یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے علمائے ازہر کے مذہبی خیالات پر تنقید و تبصرہ کرنے میں عام لوگ بھی آزاد ہیں کیوں کہ اسلام کسی ایک شخص یا جماعت کی جاگیر نہیں ہے اس لئے اپنی گزر اوقات کے پیشوں کا لحاظ کئے بغیر وہ سبھی لوگ مذہبیات کے ماہر سمجھے جائیں گے جو مذہب کا گہرا مطالعہ رکھتے ہیں اور اپنی زندگیوں میں اس کا عملی مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔

اس موقع پر ایک بات کی وضاحت کردینا بہت ضروری ہے کہ جب حکومت اسلامیہ کا قیام عمل میں آئے گا تو یہ ضروری نہیں ہوگا کہ علماء ہی گورنر،منسٹر اور شعبوں کے صدر ہوں۔ اگر کوئی تبدیلی ہوگی بھی تو صرف یہ کہ نظام حکومت کی بنیاد شریعت اسلامیہ پر رکھی جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ خدا کی زمین پر خدا کا قانون چلے گا، ورنہ بقیہ امور بدستور ہوں گے وہ اس طور پر کہ شعبہ انجینئرنگ کا صدر انجینئر ہوگا، اسپتالوں کے ذمہ دار ڈاکٹر ہوں گے اور معاشی امور کی رہبری ماہرین معاشیات ہی کے ذمہ ہوگی۔ اس طرح تمام شعبہ جات زندگی کے اندر اسلامی روح کار فرما ہوگی۔

تاریخ شاہد ہے کہ نہ تو اسلامی عقائد اور نہ ہی اسلامی حکومت نے اہلِ علم اور سائنسدانوں کے تجربات و مشاہدات کے راستہ میں کبھی بھی کسی قسم کی رکاوٹ پیدا کی ہے۔ اسلامی عظمت و اقتدار کے دور میں ہمارے کانوں نے ایسی کوئی خبر نہیں سنی کہ تجربہ، کسی نئی تحقیق و جستجو، کسی نئے نظریہ و خیال پر کوئی سائنسداں آگ میں جلایا گیا ہو۔ حقیقی اور سچی سائنس ایک مسلمان کے اس عقیدہ سے متصادم نہیں ہوتی ہے کہ اللہ ہی وہ ہے جو ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے۔ اسلام تو خود ہی بنی نوع انسان کو دعوت دیتا ہے کہ زمین و آسمان کا مشاہدہ و مطالعہ کریں ، ان کی پیدائش پر غور و فکر کریں تاکہ اس کے ذریعہ خدا کی معرفت حاصل ہوسکے۔ صحیح اور سچی سائنس اور تلاش و جستجو کے راستے یوروپ کے بہت ملحد سائنسدانوں کو خدا  تک رسائی نصیب ہوئی ہے۔

اسلام میں اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے جو عوام کو الحاد اور بے دینی کی ترغیب دیتی ہو اور یہ جو معدودے چند ملحد اور منکر مشرق ہی میں پائے جاتے ہیں، وہ اپنے استعمار پسند آقاؤں کی خواہشوں کے اندھے غلام ہیں، ان مذاہب بیزاروں کی خواہش ہے کہ انہیں عقائد و عبادات پر حملہ کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی جائے تاکہ وہ لوگوں کو ترک مذہب پر آمادہ کرسکیں لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ آکر وہ ایسا کیوں چاہتے ہیں؟

معاملہ درحقیقت یوں ہے کہ مغربی ممالک میں لوگ اپنے ذہنوں کو اوہام و خرافات سے آزاد کرنے اور عوام کو ظلم و تشدد سے نجات دلانے کے نام پر مذہب پر حملہ کرنے لگتے ہیں۔ مگر جب اسلامی شریعت انہیں وہ تمام آزادیاں دے رہی ہے جس کی انہیں ضرورت ہے تو پھر آخر کیوں مذہب پر رکیک حملے کرتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نام نہاد آزاد خیال (Liberals) آزاد خیالی میں ذرا بھی دلچسپی نہیں لیتے بلکہ اس سے زیادہ تو وہ اخلاقی گرواٹ،بے حیائی پھیلانے اور وحشیانہ جنسے بے راہ روی عام کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں آزاد خیالی کا نعرہ دراصل ایک نقاب ہے جس میں وہ اپنی جنسی اور دیگر پست خواہشات کو ڈھکے ہوتے ہیں۔ بقول علامہ اقبالؒ

براہیمی    نظر     پیدا      مگر     مشکل     سے     ہوتی     ہے

ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنالیتی ہے تصویریں

یہ نعرہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ مذہب و اخلاق کے خلاف ان کی بیہودہ جنگ کا جھنڈا ہے۔ وہ لوگ اسلام کے مخالف اس لئے نہیں ہیں کہ اسلام آزاد خیالی کا دشمن ہے بلکہ وہ اس لئے اس کے منکر ہیں کہ اسلام سطحی اور گندی خواہشات کے غلبہ و تسلط سے انسانیت کو نجات دینے کے لئے ان سے نبرد آزما ہے۔

آزاد خیالی کے علمبردار، اسلام پر الزام لگاتے ہیں کہ اسلام کا نظامِ حکومت خود مختارانہ ہے، کیوں کہ یہاں حکومت ایک وسیع اقتدار کی مالک ہوتی ہے اور یہ کتنی بری بات ہے کہ مذہب کے نام پر لامحدود طاقت و اختیارات سے کوئی جماعت فائدہ اٹھائے۔ ظاہر ہے کہ مذہب ایک مقدس چیز ہے۔ لوگوں کے دلوں پر اس کا غلبہ ہے۔ لوگوں کے لئے اس میں بڑی کشش ہے، اس لئے آنکھیں بند کر کے اس نظام حکومت کے ظلم و ستم کو لوگ برداشت کر لیتے ہیں۔ انہیں لوگوں کا خیلا ہے کہ یہ وسیع و لامحدود اختیارات خود مختاری کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ایسی صورت میں عوام ایک غلام کی طرح آزاد خیالی سے محروم ہو جاتے ہیں، ہمیشہ ہمیش کے لئے آزاد خیالی کا گلا گھٹ جاتا ہے۔ پھر کوئی شخص حکمراں طبقے کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت نہیں کرتا ہے اور اگر کبھی ایسا کوئی کرلیتا ہے تو اس پر خدا اور مذہب کے خلاف بغاوت کا الزام لگتا ہے۔

مذکورہ بالا غلط اور جھوٹے الزامات کی نہایت مدلل اور خوبصور تردید خود قرآن حکیم اور اقوالِ صحابہؓ میں موجود ہے۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:

وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ

ترجمہ: وہ لوگ اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں۔(سورہ ۴۲ آیت ۳۸)

ایک دوسری آیت میں وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ  (سورہ ۴ آیت ۵۸)

ترجمہ: اور جو لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔

خلیفہ اول ابو بکر صدیقؓ فرماتے ہیں اگر میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کرنے لگوں تو تمہارے اوپر میری کوئی اطاعت نہیں ہے ۔ اسی طرح فاروقِ اعظمؓ فرماتے ہیں: اگر میرے اندر تم کوئی کجی دیکھو تو اسے درست کردو، اسی موقعہ پر ایک مسلمان نے کھڑے ہو کر فوراً کہا “بخدا اگر ہمیں ذرا بھی کوئی کجی محسوس ہوئی تو ہم اسے تلوار کی دھار سے درست کردیں گے۔”

یہ صحیح ہے کہ مذہب کے نام پر ایک عرصہ تک دنیا میں ظلم و ستم کی حکمرانی رہی اور یہ بھی سچ ہے کہ اب تک بعض ملکوں میں مذہب ہی کے نام پر ظلم وستم کا دور دورہ ہے۔ لیکن سوال اٹھتا ہے کہ کیا مذہب ہی تنہا وہ نقاب ہے جسے ظالم حکمراں استعمال کرتے رہے ہیں۔ کیا ہٹلر نے اسی مذہب کے نام پر حکومت کی تھی؟ یا اسٹالن جس کے بارے میں روسی صحافیوں اور دانشوروں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ وہ بڑا سخت گیر،ظالم، مطلق العنان تھا، اس نے روس پر ایک پولیس کی طرح حکومت کی ہے اس نے اپنی حکومت و اقتدار کی خاطر مذہب ہی کا نعرہ بلند کیا تھا؟اور کرتہے ہیں، یہ تو وہ لوگ ہیں جو مذہب کے نام پر چراغ پا ہوجاتے ہیں اور مذہب کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اس لئے اب یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ بیسویں صدی جس نے مذہب سے نجات پانے کے لئے کیا کیا نہ جتن کئے اور اس کے لئے کیا کیا قربانیاں نہ دیں، مگر اسے وحشیانہ مطلق العنانی کا وہ دور دیکھنا پڑا  جس میں مذہب سے زیادہ پر کشش اور مقدس نام کے سہارے بنی نوع انسان کو زبردست فریب دیا گیا۔

کوئی بھی شخص مطلق العنانی (Dictatorship) کی تعریف نہیں کرسکتا اور نہ ہی کوئی آزاد ذہن و دماغ اور بیدار قلب و ضمیر والا انسان اسے تسلیم ہی کرسکتا ہے۔ اسی طرح فطرت و طبیعت کی سلامت روی کا تقاضا تو یہ ہے کہ خواہشات نفسانی کی اتباع کئے بغیر حق خالص کا اقرار کرلیا جائے۔ لیکن اس کے برعکس دیکھنے میں یہ آیا کہ ہر خوبصورت اور محترم اصول (principle) کو غلط طور پر استعمال کیا گیا ہےا ور اپنے ذاتی اغراض و مفاد کو چھپانے کے لئے اسے بہترین پردہ بنایا گیا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انقلاب فرانس (French Revolution) کے نشہ کے دوران اسی آزاد خیالی (Liberalism) کے نام پر انتہائی بد ترین اور خبیث قسم کے جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ تو کیا اس کی روشنی میں ہم جذبۂ استقلال و حریت کو لغو قرار دے دیں؟ اور اسی طرح سینکڑوں بے قصور اور معصوم انسانوں کو دستور کے نام پر قید و بند کی صوعبتیں جھیلنا پڑیں،سزائیں دی گئیں، یہاں تک کہ رسم دار ورسن بھی پوری کی گئی، تو کیا اس وجہ سے ہم دستور کو ایک قلم منسوخ کردیں ، یا کچھ ملکوں میں مذہب کے نام پر اب بھی ظلم وستم کی حکمرانی ہے۔ کیا یہ مناسب بات کوگی کہ اس سے نجات پانے کے لئے ہم مذہب ہی سے محروم ہوجائیں؟ ہاں ہم ایسے مذہب کو ضرور دیس نکالا دیں گے اور اسے ممنوع قرار دیں گے جو اپنے نصاب تعلیم، نظریاتِ زندگی، نیز بذات خود ظلم و تشدد اور ناانصافی کی تبلیغ و اشاعت کرتا ہوگا۔ لیکن کیا یہ مثال اسلام پر بھی صادق آتی ہے؟ جو کہ عدل و انصاف کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ اور خاص بات تو یہ ہے کہ اسلام کا عدل و مساوات صرف مسلمانوں ہی کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ نازک سے نازک حالات میں بھی غیر مسلموں،دشمنوں،جنگی حملہ آوروں کے لئے بھی عام ہے۔

آئیے، ذرا سوچیں کہ آخر اس کا علاج کیا ہوسکتا ہے؟ تو حالات و مشاہدات سے واضح ہوتا ہے کہ ظلم و ستم،سرکشی و بغاوت سے نپٹنے کے لئے صرف ایک طریقہ ہے، وہ یہ کہ اہل ایمان کا ہر اول دستہ تیار کیا جائے جو اللہ وحدہ لا شریک لہ پر پختہ عقیدہ رکھتا ہو اور اس آزادی کا احترام کرتا ہو جس کی دعوت مذہب نے دی ہے اور جس آزادی کی حفاظت کی ذمہ داری خود مذہب کے اوپر ہے۔ یہ ایمانی ہر اول دستہ ظالم حکمراں کو کبھی بھی نا انصافی کی اجازت نہیں دے گا۔ بلکہ جائز اختیرات کے حدود میں رہ کر انہیں کام کرنے کی ترغیب دے گا۔ میرا خیال ہے کہ عدل و انصاف کا استحکام و قیام نیز جبر و تشدد کا مقابلہ کرنے کے لئے اسلام سے بہتر کبھی بھی کسی نظام حکومت کی تشکیل اس سر زمین پر نہیں ہوئی۔ اسلام نے عوام پر ذمہ داری ڈالی ہے کہ اگر حکمراں منصف نہ ہوں تو انہیں صحیح راستہ پر لگائیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے

من رأى منكم منكرا فليغيره (صحیح مسلم)

یعنی تم میں کا کوئی شخص اگر برائی دیکھے تو اسے دور کرے۔ دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ

“یعنی عدل انصاف کا ایک کلمہ (بات) جو ظالم بادشاہ کے سامنے کہا گیا ہو وہ جہاد سے بڑھ کر ہے۔(ابو داود و ترمذی)

بہر حال آخر میں ہم اپنے ترقی پسند اور آزاد خیال (progressive & Free Thinker) بھائیوں سے صرف ایک بات کہیں گے وہ یہ کہ آزادئ خیال کا صحیح راستہ اور ذریعہ مذہب بیزاری نہیں ہے بلکہ اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو ایسی مضطرب اور انقلاب انگیز روح سے آشنا کرایا جائے جو ظلم سے نفرت کرتی ہو اور ظالم کا مقابلہ کرسکتی ہو دراصل یہی جذبۂ ایمانی اور روح مسلمانی ہے جو بندۂ مؤمن کو مطلوب ہے۔

اے خدا سینۂ مسلم کو عطا ہو وہ گداز

تھا  کبھی  حمزہؓ  و  حیدرؓ  کا  جو  سرمایۂ  ناز

پھر فضا میں تیری تکبیر کی گونجے آواز

پھر تو اس قوم کو دے گرمی روح آغاز

نقش  اسلام  ابھر  آئے  جلی  ہوجائے

ہر مسلمان  حسینؓ   ابن  علیؓ  ہو جائے

(جوشؔ)

کیا مذہب ہی تنہا وہ نقاب ہے جسے ظالم حکمراں استعمال کرتے رہے ہیں؟؟؟

Standard

اسلام اور آزاد خیالی حصہ ۶

یہ صحیح ہے کہ مذہب کے نام پر ایک عرصہ تک دنیا میں ظلم و ستم کی حکمرانی رہی اور یہ بھی سچ ہے کہ اب تک بعض ملکوں میں مذہب ہی کے نام پر ظلم وستم کا دور دورہ ہے۔ لیکن سوال اٹھتا ہے کہ کیا مذہب ہی تنہا وہ نقاب ہے جسے ظالم حکمراں استعمال کرتے رہے ہیں۔ کیا ہٹلر نے اسی مذہب کے نام پر حکومت کی تھی؟ یا اسٹالن جس کے بارے میں روسی صحافیوں اور دانشوروں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ وہ بڑا سخت گیر،ظالم، مطلق العنان تھا، اس نے روس پر ایک پولیس کی طرح حکومت کی ہے اس نے اپنی حکومت و اقتدار کی خاطر مذہب ہی کا نعرہ بلند کیا تھا؟اور کرتہے ہیں، یہ تو وہ لوگ ہیں جو مذہب کے نام پر چراغ پا ہوجاتے ہیں اور مذہب کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اس لئے اب یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ بیسویں صدی جس نے مذہب سے نجات پانے کے لئے کیا کیا نہ جتن کئے اور اس کے لئے کیا کیا قربانیاں نہ دیں، مگر اسے وحشیانہ مطلق العنانی کا وہ دور دیکھنا پڑا  جس میں مذہب سے زیادہ پر کشش اور مقدس نام کے سہارے بنی نوع انسان کو زبردست فریب دیا گیا۔

کوئی بھی شخص مطلق العنانی (Dictatorship) کی تعریف نہیں کرسکتا اور نہ ہی کوئی آزاد ذہن و دماغ اور بیدار قلب و ضمیر والا انسان اسے تسلیم ہی کرسکتا ہے۔ اسی طرح فطرت و طبیعت کی سلامت روی کا تقاضا تو یہ ہے کہ خواہشات نفسانی کی اتباع کئے بغیر حق خالص کا اقرار کرلیا جائے۔ لیکن اس کے برعکس دیکھنے میں یہ آیا کہ ہر خوبصورت اور محترم اصول (principle) کو غلط طور پر استعمال کیا گیا ہےا ور اپنے ذاتی اغراض و مفاد کو چھپانے کے لئے اسے بہترین پردہ بنایا گیا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انقلاب فرانس (French Revolution) کے نشہ کے دوران اسی آزاد خیالی (Liberalism) کے نام پر انتہائی بد ترین اور خبیث قسم کے جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ تو کیا اس کی روشنی میں ہم جذبۂ استقلال و حریت کو لغو قرار دے دیں؟ اور اسی طرح سینکڑوں بے قصور اور معصوم انسانوں کو دستور کے نام پر قید و بند کی صوعبتیں جھیلنا پڑیں،سزائیں دی گئیں، یہاں تک کہ رسم دار ورسن بھی پوری کی گئی، تو کیا اس وجہ سے ہم دستور کو ایک قلم منسوخ کردیں ، یا کچھ ملکوں میں مذہب کے نام پر اب بھی ظلم وستم کی حکمرانی ہے۔ کیا یہ مناسب بات کوگی کہ اس سے نجات پانے کے لئے ہم مذہب ہی سے محروم ہوجائیں؟ ہاں ہم ایسے مذہب کو ضرور دیس نکالا دیں گے اور اسے ممنوع قرار دیں گے جو اپنے نصاب تعلیم، نظریاتِ زندگی، نیز بذات خود ظلم و تشدد اور ناانصافی کی تبلیغ و اشاعت کرتا ہوگا۔ لیکن کیا یہ مثال اسلام پر بھی صادق آتی ہے؟ جو کہ عدل و انصاف کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ اور خاص بات تو یہ ہے کہ اسلام کا عدل و مساوات صرف مسلمانوں ہی کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ نازک سے نازک حالات میں بھی غیر مسلموں،دشمنوں،جنگی حملہ آوروں کے لئے بھی عام ہے۔

آئیے، ذرا سوچیں کہ آخر اس کا علاج کیا ہوسکتا ہے؟ تو حالات و مشاہدات سے واضح ہوتا ہے کہ ظلم و ستم،سرکشی و بغاوت سے نپٹنے کے لئے صرف ایک طریقہ ہے، وہ یہ کہ اہل ایمان کا ہر اول دستہ تیار کیا جائے جو اللہ وحدہ لا شریک لہ پر پختہ عقیدہ رکھتا ہو اور اس آزادی کا احترام کرتا ہو جس کی دعوت مذہب نے دی ہے اور جس آزادی کی حفاظت کی ذمہ داری خود مذہب کے اوپر ہے۔ یہ ایمانی ہر اول دستہ ظالم حکمراں کو کبھی بھی نا انصافی کی اجازت نہیں دے گا۔ بلکہ جائز اختیرات کے حدود میں رہ کر انہیں کام کرنے کی ترغیب دے گا۔ میرا خیال ہے کہ عدل و انصاف کا استحکام و قیام نیز جبر و تشدد کا مقابلہ کرنے کے لئے اسلام سے بہتر کبھی بھی کسی نظام حکومت کی تشکیل اس سر زمین پر نہیں ہوئی۔ اسلام نے عوام پر ذمہ داری ڈالی ہے کہ اگر حکمراں منصف نہ ہوں تو انہیں صحیح راستہ پر لگائیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے

من رأى منكم منكرا فليغيره (صحیح مسلم)

یعنی تم میں کا کوئی شخص اگر برائی دیکھے تو اسے دور کرے۔ دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ

“یعنی عدل انصاف کا ایک کلمہ (بات) جو ظالم بادشاہ کے سامنے کہا گیا ہو وہ جہاد سے بڑھ کر ہے۔(ابو داود و ترمذی)

بہر حال آخر میں ہم اپنے ترقی پسند اور آزاد خیال (progressive & Free Thinker) بھائیوں سے صرف ایک بات کہیں گے وہ یہ کہ آزادئ خیال کا صحیح راستہ اور ذریعہ مذہب بیزاری نہیں ہے بلکہ اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو ایسی مضطرب اور انقلاب انگیز روح سے آشنا کرایا جائے جو ظلم سے نفرت کرتی ہو اور ظالم کا مقابلہ کرسکتی ہو دراصل یہی جذبۂ ایمانی اور روح مسلمانی ہے جو بندۂ مؤمن کو مطلوب ہے۔

اے خدا سینۂ مسلم کو عطا ہو وہ گداز

تھا  کبھی  حمزہؓ  و  حیدرؓ  کا  جو  سرمایۂ  ناز

پھر فضا میں تیری تکبیر کی گونجے آواز

پھر تو اس قوم کو دے گرمی روح آغاز

نقش  اسلام  ابھر  آئے  جلی  ہوجائے

ہر مسلمان  حسینؓ   ابن  علیؓ  ہو جائے

(جوشؔ)

اسلام مرد کی تربیت اور عورت کا پردہ

Standard

الحمد للہ اسلام نے دونوں کو پردہ کی تعلیم دی ہے، یہ دہریہ اور ملحدین اسلام سے بغض میں ایسی حرکتیں کرتے ہیں، دیکھو اسلامی تعلیماتَ

مردوں کے لیے احکام:-

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

آیت:  قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ (النور :۳۰)۔

ترجمہ: ” آپ مسلمانوں مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ صفائی کی بات ہے۔”(النور :۳۰)۔

مزید احادیث میں نبی کریم ﷺ کے فرامیں ملاحظہ ہوں

احادیث: ۱۔ حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے اتفاق نگاہ کے متعلق سوال کیا، تو فرمایا: “نگاہ پھیر لو”(مسند احمد،مسلم،ابو داود،ترمذی)۔

حدیث۲:۔آپ ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: “اے علی! ایک نگاہ کے بعد دوسری نگاہ نہ ڈالو۔۔۔۔”(مسند احمد،ابو داود،ترمذی)۔

حدیث۳ :۔ حجۃ الوداع میں ایک عورت آپ ﷺ سے مسئلہ پوچھنے آئی تو حضرت فضلؓ اس کی طرف دیکھنے لگے، تو آپﷺ نے ان کی ٹھوڑی پکڑ کر چہرہ دوسری  طرف پھیر دیا ۔۔۔۔۔(بخاری)

عورتوں کے لئے احکام:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

آیت:  وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ (النور :۳۱)۔

ترجمہ: اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔۔۔”(سورہ النور:۳۱)۔

حدیث: ایک مرتبہ حضرت ابن ام مکتومؓ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے حضرت ام  سلمہؓ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما کو ان سے پردہ کا حکم دیا، اس پر حضرت ام سلمہؓ نے عرض کیا وہ تو نابینا ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا:”کیا تم دونوں بھی نابینا ہو، تم انہیں نہیں دیکھ رہی ہو؟”(ابو داود،نسائی،ترمذی،ابن حبان)۔

الحمد للہ اسلام کامل اور مکمل دین ہے، اس پر عمل کر لیں گے عورت کی عزت کی حفاظت بھی ہوجائے گی اور مرد کی تربیت بھی۔ اور ماحول بالکل باحیا ہوجائے گا۔

اثبات صانع عالم کی ۱۰ عقلی دلیلیں

Standard

وجود باری تعالی یعنی ہستی صانع عالم کے دلائل عقلیہ سے ثبوت

پہلی دلیل — دلیل صنعت

تمام عقلاء اس بات پر متفق ہیں کے صنعت سے صانع(بنانے والا) کی خبر ملتی ہے مصنوع (جس کو بنایا گیا)اور صنعت (factory)کو دیکھ کر عقل مجبور ہوتی ہے کے صانع کا اقرار کرے اور دہریئے(atheist) اور لا مذہب لوگ بھی اس اصول کو تسلیم کرتے ہیں کے فعل کے لئے فاعل  کا ہونا ضروری ہے . پس جبکہ ایک بلند عمارت اور ایک بڑا قلعہ اور اونچے مینار کو اور ایک دریا کے پل کو دیکھ کر عقل یہ یقین کر لیتی ہے کہ اس عمارت کا بنانے والا کوئی ضرور ہے اور اس منار اور پل کا  بنانے والا کوئی بڑا ہی ماہر انجینیر ہے تو کیا آسمان اور زمین کی اعلیٰ ترین عمارت اور اسکی عجیب و غریب صنعت اور اسکی باقائدگی اور حسن ترتیب کو دیکھ کر ایک اعلیٰ ترین صانع کا کیوں اقرار نہیں کیا جاتا.

          ایک تخت کو  دیکھتے ہی یہ یقین آجاتا ہے کہ کسی کاریگر نے اس ہئیت اور وضع سے اس کو بنایا ہے کیونکہ تخت کا خود بخود تیّار ہوجانا اور خاص ترتیب کے ساتھ لوہے کی کیلوں کا اس میں جڑ جانا محال ہے کسی درخت کے تختوں اور لوہے کی کیلوں میں یہ قدرت نہیں کہ اس ترتیب سے خود بخود جڑ جائیں.

          ایک دہری اور سائنس دان ایک معمولی گہڑی اور گھنٹہ کو دیکھ کر یہ اقرار کرتا ہے کہ یہ کسی بڑے ہی ماہر کی ایجاد ہے کے جو قوائد ہندسہ(digits) اور کل سازی کے اصول سے پورا واقف ہے اور یہ یقین کر لیتا ہے کے ضرور بالضرور اس گھڑی کا کوئی بنانے والا ہے کہ جس نے عجیب انداز سے اسکے پرزوں کو مراتب کیا ہے اور جس کے ذریعہ اوقات کا بخوبی پتہ چلتا ہے حالانکہ وہ یہ امر بخوبی جانتا ہے کہ دنیا کی گھڑیاں اور گھنٹے وقت بتلانے میں بسا اوقات غلطی کرتے ہیں مگر چاند سورج جو کبھی طلوع اور غروب میں غلطی نہیں کرتے اور جنکے ذریعہ سارے عالم کا نظام حیات اور نظام اوقات چل رہا ہے ،یہ دہری چاند اور سورج کے صانع کا اقرار نہیں کرتا اگر اس موقعہ پر کوئی یہ کہنے لگے کہ اس گھڑی کو ایک ایسے شخص نے بنایا ہے جو اندھا اور بھرا اور گونگا ہے اور ناسمجھ اور بے خبر اور علم ہندسہ سے بے بہرہ اور کل سازی کے اصول سے ناواقف ہے تو کیا یہی فلسفی اور سائنسدان اس کہنے والے  کو پرلے درجہ کا احمق نہ بتلائےگا ؟ غرض یہ کہ جہاں صنعت اور کاریگری پائی جائیگی صانع کا تصور اور اقرار ضرور کرنا پڑےگا.

بلکہ

صنعت کو دیکھ کر صرف صانع کا یقین ہی نہیں ہوتا بلکہ اجمالی طور پر صانع کا مرتبہ بھی معلوم ہو جاتا ہے پس کیا آسمان و زمین کی اعلی ترین صنعت کو دیکھ کر ہم کو یہ یقین نہیں ہوگا کہ اس کا صانع بھی بڑا ہی اعلی اور ارفع اور اعظم اور اجل اور عقل سے بالا اور برتر ہے کہ جس کے صنائع اور بدائع کے سمجھنے سے عقلاء عالم کی عقلیں قاصر اور عاجز ہیں.

یہ منکرین خدا جب بازار میں بوٹ جوتا خریدنے جاتے ہیں تو دکاندار سے پوچھتے ہیں کے یہ بوٹ کس کارخانہ کا بنا ہے تو وہ اگر جواب میں یہ کہے کہ یہ بوٹ کسی کارخانہ میں نہیں بنا ہے بلکہ یہ بوٹ خود مادہ اور ایتھر کی حرکت سے آپ کے پیر کے مطابق تیار ہوگیا ہے اور خود بخود حرکت کرکے میری اس دکان پر آگیا ہے تو منکر خدا صاحب دکاندارکے اس جواب کے متعلق کیا کہیں گے، غور کرلیں اور بتلائیں کہ کیا سمجھ میں آیا اور اپنے اوپر منطبق کریں.

اثبات صانع  کی دوسری دلیل— وجود بعد العدم

ہر ذی عقل کو یہ بات معلوم ہے کہ میں ایک وقت میں معدوم(نا پید،فناکیا گیا ) تھا اور ایک طویل وعریض عدم(نیستی۔نہ ہونا۔ناپیدی) کے بعد موجود ہوا ہوں اور جو چیز عدم کے بعد وجود میں آئے اس کے واسطے کوئی پیدا کرنے والا اور اس کو عدم سے وجود میں لانے والا چاہئے اور یہ  بھی معلوم ہے کہ میرا خالق نہ میرا نفس ہے اور نہ میرے ماں باپ اور نہ میرے جنس اس لئے کہ وہ سب میری طرح عاجز ہیں کسی میں ایک ناخن اور بال پیدا کرنے کی بھی قدرت نہیں اور نہ آسمان اور زمین اور نہ یہ عناصر اور نہ کواکب اور نہ یہ فصول میرے خالق ہیں اس لئے کہ یہ چیزیں بے شعور اور بے ادراک (بے عقل) ہیں اور ہر وقت متغیر (بدلتی) اور متبدل ہوتی رہتی ہیں ان میں یہ صلاحیت کہاں کہ ایک ذی علم اور ذی فہم انسان کو پیدا کرسکیں پس معلوم ہوا کہ میرا  خالق کوئی ایسی چیز ہے کہ جو لاچارگی اور حدوث اور تغیر و تبدل اور عیب اور نقسان سے پاک ہے وہی ہمارا خدا اور معبود ہے۔

 

اثبات صانع کی تیسری دلیل—- تغیراتِ عَالَم

موجودات عالم پر ایک نظر ڈالیے ہر ایک چھوٹی اور بڑی چیز حیوانات یا نباتات یا جمادات مفردات یا مرکبات جس پر نظر ڈالیے ہر لمحہ اس میں تغیر و تبدل ہے اور کون و فساد اور موت و حیات کا ایک عظیم  انقلاب برپا ہے جو بآواز بلند پکار رہا ہے کہ یہ تمام متغیر ہونے والی (بدلنے والی) چیزیں حادث ہیں اپنی ذات سے کوئی بھی قدیم نہیں۔ کسی عظیم ترین ہستی کے زیر ِفرمان ہیں کہ وہ جس طرح چاہتا ہے ان کہ پلٹییں دیتا رہتا ہے اور طرح طرح سے ان کہونچاتا رہتا ہے اور زیر و  زبر کرتا ہے پس جس ذات بابرکت کے ہاتھ میں ان تغیرات اور انقلابات کی باگ ہے وہی ان سب کا خالق و موجد ہے۔

          منکیرین  ِ خدا یہ کہتے ہیں کہ عالم کے یہ تغیرات اور تبدلات محض قانون طبعی اور قانون فطری کے تحت چل رہے ہیں ،اہل اسلام یہ کہتے ہیں کہ قانون طبعی اور قانون فطری  صرف ایک آلہ ہے جو کسی با اختیار کاریگر کا محتاج ہے اس کاریگر کو ہم خدا کہتے ہیں جو اس آلہ کا محرک ہے اور وہی اس آلہ کا خالق بھی ہے وہی اپنے اختیار سے اس عجیب و غریب نظام کو چلا رہا ہے محض آلہ کو کاریگر سمجھ لینا اور یہ گمان کرلیتا کہ اس آلہ اور بسولہ(لکڑی چھیلنے کا آلہ)  ہی نے تخت اور الماریاں تیار کردی ہیں یہ ایک خیال خام ہے اور جو شخص یہ گمان کرے کہ بغیر کاریگر کے محض آلہ کی فطری اور طبعی حرکت سے یہ الماری تیار ہوگئی ہے تو وہ بلا شبہ دیوانہ ہے۔

اثبات صانع کی چوتھی دلیل-امکانِ اشیاء

واجب الوجود کی ہستی کی ایک دلیل  یہ ہے کہ عالم میں جس قدر اشیاء موجود ہیں وہ سب کی ممکنات ہیں یعنی ان کا ہونا اور نہ ہونا وجود اور عدم  ہستی اور نیستی دونوں برابر کے درجہ میں ہیں نہ انکا وجود ضروری ہے اور نہ ان کا عدم ضروری ہے اور جو چیز بذاتہ (خود سے)ممکن الوجود ہو یعنی اپنی ذات کے اعتبار سے اسکی ہستی اور نیستی برابر ہو اس کے وجود اور ہستی کے لئے عقلاً کسی مرجح (افضل) اور موجد(بانی)  کا وجود ضروری ہے کیوں کہ کوئی چیز خود بخود یا محض اتفاق وقت سے بلا سبب عدم سے نکل کر وجود میں نہیں آسکتی جب تک اس کے وجود کے لئے کوئی سبب اور موجد نہ ہو کہ جو اس کو ترجیح دیکر اس کو عدم سے نکال کر وجود میں لائے ورنہ ترجیح بلا مرجح   لازم آئے گی جو بالبداہت محال ہے اور ہر ذی ہوش کے نزدیک ظاہر البطلان ہے  کیوں کہ ممکن اپنی ذات اور ماہیت (کیفیت)کے لحاظ سے نہ موجود ہے اور نہ معدوم ۔ وجود اور عدم دونوں اس کے حق میں یکساں ہیں پس ضرورت اس کی ہے کہ کوئی ذات ایسی ہو کہ جو اس کو عدم ازلی (ہمیشہ کی نیستی/نہ ہونے)کے پنجرے سے نکال کر وجود کے دلفریب میدان میں لے آئے پس جس ذات نے اس عالم امکانی کو عدم سے نکال کر وجود کا خلعت(پوشاک) پہنایا اور اس کے وجود کو اس کے عدم پر ترجیح دی وہی ذات واجب الوجود ہے جس کو اہل اسلام خدا کی ہستی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ؂

یہ بارونق جو ہے ہستی کا گلزار :: عدم سے کر دیا اس نے نمودار

        اور واجب الوجود وہ ہے کہ جس کا وجود ضروری ہو اور ممکنات کے قبیل سے نہ ہو ورنہ ، خفتہ را خفتہ کے کند بیدار(خفتہ – سویا ہوا، کند – سست کاہل) کی مثل صادق ہوگی کیوں کہ اگر وہ خود ممکن ہوگا تو اس کا وجود اور عدم اس کے حق میں یکساں ہوگا تو وہ دوسری چیز کے لئے وہ کیوں کر علت اور مرجح (افضل)  بن سکے گا۔ پس جو واجب الوجود اور خود بخود موجود ہو اور دوسرے کے لئے واجب الوجود ہو اسی کو ہم خدا کہتے ہیں۔ خدا کو خدا اس لئے کہتے ہیں کہ وہ خود بخود ہے۔

اثبات صانع کی پانچویں دلیل —- فناء و زوال

          عالم کی جس چیز کو بھی دیکھو تو اس کا وجود پائدار نہیں ،ایک زمانہ تھا کو وہ پردہ عدم میں مستور تھی اور پھر اسی طرح ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جس میں اس کا نام صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔؂

رہیں گے پھول نہ پھولوں میں رنگ و بو باقی :: رہے گا اے میرے معبود ایک تو ہی باقی

یہ موت اور حیات کی کشمکش اور وجود و عدم کی آمد و رفت بآواز بلند یہ پکار رہی ہے کہ ہمارا یہ وجود ہمارا خانہ زاد اور خود ساختہ نہیں بلکہ مستعار اور کسی دوسرے کی عطا ہے جیسے زمیں پر دھوپ اور روشنی کی آمد و رفت اس امر کی دلیل ہے کہ یہ روشنی زمین کی ذاتی نہیں بلکہ عطیئہ آفتاب ہے کہ حرکت طلوعی میں آفتاب اس کو عطا کرتا ہے اور حرکت غروبی میں اس کو واپس لےلیتا ہے اسی طرح ممکنات اور کائنات کا وجود اور عدم جس ذات کے ہاتھ میں ہے وہی واجب الوجود ہے جس کا وجود ذاتی ہے اسی کو ہم مسلمان اللہ اور خدا کہتے ہیں۔

اثبات صانع کی چھٹی دلیل —-  اختلاف صفات  و کیفیات

زمین سے لے کر آسمان تک عالم کے تمام اجسام جسمیت کے لحاظ سے برابر ہیں اور جب چیزیں حقیقت اور ماہیت سے برابر ہوں تو جو کچھ ایک چیز کے لئے روا ہے وہی دوسرے کے لئے بھی روا ہے جب یہ بات ثابت ہوگئی تو اس سے معلوم ہوا  کہ آسمان جو بلند ہے اس کا نشیب اور پستی میں ہونا بھی روا ہے اور زمین جو پستی میں ہے اس کا بلندی میں ہونا بھی روا ہے اور آگ جو گرم اور خشک ہے اس کا سرد اور تر ہونا بھی روا ہے اور پانی جو سرد اور تر ہے اس کا گرم اور خشک ہونا بھی  روا ہے پس جب اجسام میں تمام صفات اور کیفیات جائز اور روا ہیں تو پھر ہر جسم کے لئے ایک خاص معیّن کیفیت اور معیّن شکل اور معیّن احاطہ اور معیّن مقدار کے لئے کوئی مؤثر مدبّر اور مقدّر مقتدر چاہئے کہ جس نے ان تمام جائز اور ممکن صفات اور کیفیات میں سے ہر جسم کو ایک خاص صفت اور خاص کمیّت اور خاص کیفیت اور خاص ہئیت کے ساتھ معیّن اور مخصوص کیا ،کیوں کہ ہر جائز اور ممکن کے لئے کسی مرجح (افضل)  کا ہونا ضروری ہے کہ جو کسی ایک جانب کو ترجیح دے ورنہ ترجیح بلا مرجح   لازم آئیگی پس وہی مؤثر مدبر اور مقدّر مقتدر اس عالم کا رب ہے۔

اثبات صانع کی  ساتویں دلیل —- دلیل حرکت

علامہ  احمد بن مسکویہ الفوز الاصغر میں فرماتے ہیں کہ عالم کی جس چیز پر بھی نظر ڈالو وہ حرکا سے خالی نہیں اور حرکت کی چھ قسمیں ہیں

(۱)حرکتِ کَون

(۲)حرکت فساد

(۳)حرکتِ نمو

(۴)حرکت ذبول

(۵)حرکت استحالہ

(۶)حرکت نقل۔

اس لیے حرکت ایک قسم کے تبدل یا نقل کو کہتے ہیں اگر ایک شئی عدم سے وجود کی طرف حرکت کرے تو یہ حرکت کَون ہے اور اگر خرابی کی طرف حرکت ہو تو یہ حرکت فساد ہے اور اگر ایک کیفیت اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف حرکت ہو تو یہ حرکت استحالہ ہے اور اگر کمی سے زیادتی کی طرف ہو جیسے بچّہ کا بڑا ہوجانا اور پودہ کا درخت ہو جانا تو یہ حرکت نمو ہے اور افر زیادتی سے کمی کی طرف حرکت ہو جیسے کسی موٹے آدمی کا دبلا ہو جانا تو یہ حرکت ذبول ہے اور اگر ایک مکان سے دوسرے مکان کی طرف حرکت ہو تو یہ حرکت نقل ہے اس کی دو قسمیں ہیں مستقیمہ اور مستدیرہ غرض یہ کہ عالم کے تمام عناصر اور جمادات اور نباتات اور حیوانات سب کے سب حرکت میں ہیں اور ان میں کسی شئی کی حرکت اس کی ذاتی نہیں اور کوئی چیز اپنی ذات سے متحرک نہیں اور عقلاً ہر متحرک کیلئے یہ ضروری ہے کہ اس کے علاوہ اس کے لئے کوئی محرِّک ہو پس ضروری ہے کہ تمام اشیاء عالم کا بھی کوئی محرک ہو جس کی وجہ سے تمام اشیاء عالم حرکت میں آرہی ہیں پس وہ ذات جس پر کائینات عالم کی حرکت کا سلسلہ ختم ہوتا ہے وہی خدا ہے جو اس سارے عالم کو چلا رہا ہے اور طرح طرح حرکت دے رہا ہے جن کے انواع و اقسام کے ادراک سے عقلاء عالم کی عقلیں قاصر اور عاجز اور درماندہ ہیں۔

اثبات صانع کی آتھویں دلیل— حسن ترتیب

امام رازی فرماتے ہیں کہ ہستی صانع کی ایک دلیل یہ ہے کہ آسمان اور ستارے اور نباتات اور جمادات اور حیوانات کی ترتیب ہم اس طرح پر پاتے ہیں کہ حکمت کی نشانیاں اس میں ظاہر ہیں اور جس قدر زیادہ غور و فکر کرتے ہیں اسی قدر یہ نشانیاں زیادہ معلوم ہوتی ہیں جیسا کہ ہم  آئیندہ فصلوں (پوسٹس) میں اس کی شرح اور تفصیل کرینگے اور بداہت عقل سے یہ جانتے ہیں کہ ایسی عجیب و غریب نشانیوں کا ظہور محض اتفاقی طور پر محال ہے اس لئے ضروری ہوا کہ ایسے کامل اور قادر حکیم کے وجود کا اقرار کیا جائے جسے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے ان عجیب و غریب چیزوں کو عالم علوی اور سفلی میں ظاہر کیا ہے۔

قدرت کا نظام ہے بتاتا   ::   تو صانع و منتظم ہے سب کا

اثبات صانع کی نویں دلیل— عاجزی اور درماندگی

ہر ذی ہوش اس امر کو بداہت عقل سے جانتا ہے کہ انسان جب کسی بلا اور مصیبت  میں گرفتار ہوجاتا ہے اور اسباب اور وسائل اسکو جواب دے دیتے ہیں تو اس وقت اس کا دل بے اختیار عاجزی اور زاری کرنے لگتا ہے اور کسی زبردست قدرت والی ہستی سے مدد مانگتا ہے یہ اس امر کی دلیل ہے کہ ہر شخص فطری طور پر ہی جانتا ہے کہ کہئی دافع البلیات اور مجیب الداعوات اور حافظ و ناصر اور دستگیر ضرور ہے جس کو انسان بیچارگی کی حالت میں بے اختیار اپنی دستگیری کے لئے پکارتا ہے اور اس کے روبرو گریہ و زاری کرتا ہے اور یہ امید رکھتا ہے کہ وہ دستگیر میری مصیبت کو ٹال دے گا پس وہی دستگیر ہمارے نزدیک خدا ہے جو سارے عالم کی سنتا ہے اور دستگیری کرتا ہے ؂

جب لیتے ہیں گھیر تیری قدرت کے ظہور

منکر بھی پکار اٹھتے ہیں تجھکو ضرور

اثبات صانع کی دسویں دلیل— ذلّت و خواری ِ اشیاء

اس کارخانۂ عالم کی جس چیز پر بھی نظر ڈالیے تو ذلّت و خواری اوراحتیاج ہی ٹپکتی ہوئی نظر آئےگی جس سے بالبداہت یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ سارا کارخانہ محض بخت و اتفاق سے پیدا نہیں ہوا بلکہ کسی بڑے عزت و حکمت والے کے سامنے ذلیل و خوار اور اس کے حکم کا فرمانبردار ہے۔

آسمان، چھاند، سورج ستاروں کو دیکھے کہ ایک حال پر قرار نہیں کبھی عروج اور کبھی نزول کبھی طلوع اور کبھی غروب کبھی نور اور کبھی گہن ہے ۔ آگ کو دیکھئے کہ تھامے نہیں تھمتی ،ہوا کا حال یہ ہے کہ کبھی حرکت اور کبھی سکون اور حرکت بھی ہے تو کبھی شمال اور کبھی جنوب کی جانب اور کبھی مشرق اور کبھی مغرب کی جانب ہے۔ غرض یہ کہ ہوا ماری ماری پھرتی ہے اور پانی کا کرہ ہوا کے جھونکوں سے کہیں کا کہیں نکلا چلا جاتا ہے زمین کو دیکھے کہ اس کی پستی اور لاچاری اس درجہ میں ہے کہ مخلوق اس کہ جس طرح چاہتی ہے پامال کرتی ہے کوئی بول و براز سے اسے آلودہ کر رہا ہے اوع کوئی لید اور گوبر سے اس کو گندہ کر رہا ہے  کوئی اس پر دوڑ رہا ہے اور کوئی اسے کھود رہا ہے مگر زمیں سر نہیں ہلا سکتی، حیوانات کو دیکھئے  کہ وہ کس طتح لاچار ہیں کوئی ان پر سوار ہو رہا ہے اور کوئی ان پر بوجھ لاد رہا ہے اورکوئی ان کو ذبح کر رہا ہے اور تمام مخلوقات میں سب سے افضل یہ نوع انسانی ہے وہ ذلت اور احتیاج میں تمام مخلوقات سے بڑھا ہوا ہے۔ بھوک اور پیاس اور بول و براز صحت و  مرض ، گرمی و سردی اور قسم قسم کی ضرورتوں اور خواہشوں نے اس کو نچا رکھا ہے حیوانات تو فقط کھانے اور پینے ہی میں محتاج ہیں اور حضرت انسان کے پیچھے تو حاجتوں کا ایک لشکر لگا ہوا ہے انسان کو کبڑا بھی چاہئے مکان بھی چاہئے گھوڑا گاڑی بھی چاہئے ، عزت اور منصب اور جاگیر بھی چاہئے بیاہ شادی بھی چاہئے بیماری کی حالت میں طبیب اور ڈاکڑ بھی چاہئے بغیر ان کے زندگی دوبھر ہے اور حیوانات کو ان میں سے کسی چیز کی ضرورت نہیں ۔ حیوان کو نہ لباس کی ضرورت ہے اور نہ بیماری میں لسہ ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔ حیوان بغیر کسی میڈیکل کالج میں تعلیم پائے خود بخود اپنی بیماری کے مناسب جڑی بوٹیوں کو کھا کر شفایاب ہوجاتا ہے پس جب انسان کہ جو باتفاق اہل عقل اشرف المخلوقات ہے اس قدر ذلیل اور حاجت مند اور محکوم ٹھرا کہ ہر طرگ سے حاجتیں اور ضرورتیں اس کی گردن پکڑے ہوئے ہیں اور باقی عالم کی ذلت و خواری کا حال آسمان سے لیکر زمین تک محمل طور پر معلوم ہی ہوچکا تو پھر کیوں  کر عقل باور کرسکتی ہے کہ یہ سارا کارخانہ خود بخود چل رہا ہے کائینات عالم کی اس ذلت و خواری اور مجبوریو لاچاری کو دیکھ کر بے اختیار دل میں آتا ہے کہ ان کے سر پر کوئی ایسا زبردست حاکم ہے جو ان سے ہر دم مثل قیدیوں کے بیگاریں لیتا ہے تاکہ یہ مغرور نہ ہوجائیں اور کسی کو ان کی بے نیازی کا گمان نہ ہو بیشک یہ قید میں رکھنے والی زبردست اور غالب ہستی واجب الوجوب اور الہ العالمین کی ہے۔

ایں جہاں آئینہ دارروئے تو :: ذرہ ذرہ رہ نماید سوئے تو

مادہ پرست بتلائیں کہ ہماری یہ بے شمار قسم قسم کی ضرورتیں اور حاجتیں کون پوری کر رہا ہے آیا مادہ اور اس کی حرکت سے پوری ہو رہی ہیں یا کسی خداوند کریم سے پوری ہو رہی ہیں

 — مصنف حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ، اللہ ان کی خبر کو نور سے بھردے