لبرلز کی ڈوگلی پالیسی

Standard

ایک لبرل نے لکھا کہ نبی ﷺ علاقائی کلچرز میں شرکت کرتے تھے لہذا آج ساری دنیا ایک علاقہ بن چکی ہے اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ شرکت کریں،

قطعہ نظر اس سے کہ اس نے جو بات نبی ﷺ کی طرف منسوب کی ہے اس میں کتنی سچائی ہے،

ذرا مجھے یہ بتالئیں کہ آج ساری دنیا کس طرح ایک علاقہ ہے، ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کے لئے ویزا، پاسپورٹ وغیرہ کی ضرورت۔

حالاں کہ پہلے زمانہ میں تو بھی ساری دنیا یا اکثر حصہ ایک علاقہ کی طرح ہوتا تھا خصوصاً اسلامی خلافت کے ادوار میں کہ اس میں نہ تو پاسپورٹ کی ضرورت تھی نہ ہی ویزا کی ہر کوئی ہر جگہ سفر آسانی سے کرسکتا تھا۔

نیز ان لبرلز کو اسلامی اعیاد میں تو اسراف نظر آتا ہے اور غریب عوام یاد آتی ہے اور غیروں کے ان کلچرز جن میں اسراف و فضول خرچی عام ہوتی ہے اس کو منانے کی دعوت دیتے ہیں؟؟؟

 

افضلیتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم

Standard
عیسائی پادری کی طرف سے چند سوالات جس سے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ثابت کرنے کی کوشش کا اجمالاً جوابآپ کا مکتوب موصول ہوا جو چند سوالات پر مشتمل ہے جن کا حاصل وہ چند وجوہ ہیں جن کی بنا پر بعض عیسائی مبلغوں نے حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام کی فضیلت خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ پر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور اس طرح آنحضرت ﷺ کی اس فضیلت و برتری پر جو حق تعالیٰ نے آپ کو تمام انبیاء پر عنایت فرمائی ہے اعتراضات کئے ہیں ان تمام سوالات یا اعتراضات کے جواب سے قبل ایک بات تمہید کے طور پر سمجھ لینا ضروری ہے وہ یہ کہ مذکورہ سوالات کے ضمن میں جو تمام فضائل مسیح بن مریم علیہ السلام کے ذکر کئے ہیں وہ تمام قرآن شریف سے ہی ثابت ہیں۔ اس قرآن سے جو تمام عالم نے محمد رسول اللہ ﷺ کی زبان سے سنا تو یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ ان سب فضیلتوں کی نسبت آنحضرت ﷺ کی جانب ہے اور انہیں کے واسطے سے دنیا کو مسیح بن مریم کے یہ کمالات معلوم ہوئے گویا ان فضائل اور کمالات کی بخشش و عنایت بارگاہ نبوت محمد ﷺ سے ہوئی ہے اور ظاہر ہے کہ محسن اس سے افضل ہے جس پر احسان کیا جارہا ہے پھر عقلاً یہ بات بھی مسلّم ہے کہ کسی کے کمال کا اظہار خود اس ظاہر کرنے والے کے کمال کی دلیل ہے کہ اس ذات کو کسی کے کمال و فضیلت کے بیان اور اظہار میں کوئی جھجک اور ادنیٰ تأمّل بھی نہیں۔ یہ ایثار و احسان اس کی طرف سے ہوتا ہے جس کی فضیلت دنیا میں مسلم ہو۔

اگر قرآن ان فضائل کو بیان نہ کرتا تو دنیا کو مسیح بن مریم علیہ السلام اور ان کی والدہ کی فضیلت تو کیا معلوم ہوتی اہل کتاب کی محرف اور بے بنیاد باتوں اور بیہودہ خیالات کی اشاعت کی وجہ سے تو آنے والی نسلیں نہ معلوم مریم علیہا السلام اور مسیح بن مریم علیہ السلام کے متعلق کیا کیا نظریات قائم کرتیں۔ تمام عیسائیوں پر یہ احسان صرف قرآن کریم اور صاحبِ قرآں محمد رسول اللہﷺ کا ہے کہ سیدتنا مریم علیہا السلام کی پاکدامنی اور  نساء عالمین(اس زمانے کی عورتیں مراد ہیں جس زمانے میں مریم علیہا السلام موجود تھیں) پر ان کی برتری کے ساتھ عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت اور کمالات نبوت سے دنیا کو روشناس کرایا۔اور ان کے دشمنوں کے جو لغو اعتراضات اور بیہودہ خیالات تھے ان کی بڑی  تفصیل و وضاحت سے تردید کی  اگر قرآن اور صاحب قرآن کا یہ احسان عظیم نہ ہوتا تو دنیا مسیح علیہ السلام کی نبوت و فضیلت تو درکنار ان کی اور ان کی والدہ کی پاکدامنی اور شرافت نسبی سے بھی ناواقف ہی رہتی۔

بائبل اور انجیل سے دنیا کو مسیحی مذہب سے متعلق سوائے اوہام و شکوک اور چند ناقابل فہم اور خلافِ عقل باتوں کے اور کچھ نہ ملتا۔ یا پھر کچھ ایسی ہی چیزیں پائی جاتیں جو عام بازاری،شہوت پرست،عیاش اور بد اطوار انسان کے سوا کسی میں قابل تصور نہیں ہوسکتیں۔ ان فحش اور غیر مہذب حوالوں کے لئے مقدمہ تفسیر حقانی از  صفحہ ۵۷۶ ملاحظہ کیا جائے۔ وہ فحش تشبیہات ہیں کہ نہ معلوم پادری لوگ گرجا میں کس طرح ان کو سناتے ہوں گے یا شرم سے اپنی آنکھیں نیچی کرلیتے ہوں گے ۔ عیسائیوں کو اپنی کتاب سے اگر کچھ ملتا تو وہ یہی کہ ان کے پیغمبر بیت اللحم کے اصطبل کے اندر پیدا ہوئے جیسا کہ انجیل لوقا کے دوسرے باب میں تصریح ہے۔ مسیح بیت اللحم کے اندر پیدا ہوئے:- یا پھر یہ نظر آتا کہ یسوع مسیح کی پیدائش یوں ہوئی کہ جب ان کی ماں مریم کی منگنی یوسف سے ہوئی تو ان کے جمع ہونے سے پہلے وہ حاملہ پائی گئی۔ تب ان کے شوہر یوسف نے چاہا کہ انھیں چپکے سے چھوڑ دیں الخ بحوالہ تفسیر حقانی  ج۲ ص۵۸(اس بیان کو مد نظر رکھتے ہوئے مسیح بن مریم کا بزعم نصاریٰ خدا کا بیٹا ہونا تو کیا ثابت ہوگا۔ صحیح نسب کا مسئلہ حل ہونا مشکل ہوگا۔)

اس کے مقابل قرآن کریم جس عظمت و احترام سے حضرت مسیح کی ولادت اور پاکدامنی اور نزاہت کا ذکر کرتا ہے، قرآن کی ان آیات کو دیکھ کر ہر انسان اپنے قلب کو ہر دو کی عظمت و فضیلت و عفت و پاکدامنی سے لبریز پاتا ہے (تفصیل کے لئے دیکھئے سورہ مریم،آل عمران اور سورہ تحریم) اور اگر عیسائیوں کو اپنی کتاب میں اپنے پیغمبر کے بارے میں کچھ ملتا ہے تو وہ ایسے شرمناک الفاظ ہیں کہ کوئی عاقل انسان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف ان اقوال کی نسبت نہیں کرسکتا مثلاً انجیل یوحنّا کے باب ۱۶ میں حضرت مسیح علیہ السلام کا یہ قول نقل کیا گیا ہے۔”مجھ سے پہلے جس قدر انبیاء آئے سب چور و رہزن تھے، پھر اسی قول کی تقلید کرتے ہوئے پولوس مقدس حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جانب میں کیا گستاخی کرتے ہیں۔ ہم موسیٰ کی مانند عمل نہیں کرتے جس نے اپنے چہرے پر پردہ ڈالا تھا تاکہ بنی اسرائیل بخوبی نہ دیکھ سکیں الخ۔”

معاذ اللہ کیا یہ اقوال ایسے ہیں کہ کسی پیغمبر کی طرف ان کی نسبت کی جائے۔ الغرض قرآن کا یہ بڑا احسان براہ راست نصاری پر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کی حقیقی فضیلت اور برتری کے ساتھ عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت اور کمالات نبوت اور دلائل نبوت کو بھی بیان کردیا بس یہی ایک سبب بہت کافی ہے محمد رسول اللہ ﷺ کے تمام انبیاء سے افضل ہونے کے لئے کہ آپ کی کتاب کے ذریعے خدا کے پیغمبروں کی سچی اور پاکیزہ شخصیت پہچانی جاتی ہے۔ جس طرح قرآن دوسرے انبیاء کے فضائل کو واضح طریق پر بیان کرتا ہے ایسا ہی مسیح علیہ السلام تک جتنے پیغمبر گزرے ہیں سب کے فضائل ایک سے ایک نرالے انداز میں قرآن بیان کررہا ہے۔

یہ تمام فضائل کا ذکر اپنے ایک ایک حرف کے ساتھ گواہی دے رہا ہے کہ ان سب فضیلتوں سے بڑھ کر خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ کی فضیلت ہے جن کی وحی انبیاء علیہم السلام کی نبوت ان کے کمالات اور معجزات پر ایک مہر ثبوت ہے۔

افضلیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم

Standard

ایک عیسائی کی لمبی تحریر پڑھنے کا اتفاق ہوا اس میں اس بیچارے نے یہ کوشش کی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام قرآن میں محمد ﷺ کے نام سے زیادہ آیا نیز قرآن میں کسی عورت کا نام نہیں آیا لیکن حضرت مریم کا نام آیا اور ان کے نام کی ایک سورت بھی قرآن میں موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس پورے مضمون میں بیچارے نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت محمد ﷺ سے افضل ہیں۔

مختصراً چند باتیں اس سلسلہ میں

۱۔ قرآن کریم محمد ﷺ پر نازل ہوا تو اور وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے تو عرض یہ ہے کہ گفتگو ہوتی ہے تو سیکنڈ پرسن( second person)  کا نام نہیں لیا جاتا ہے بلکہ تیسرے شخص کا نام زیادہ لیا جاتا ہے۔

نیز اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو یہ فضیلت دی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتہ حضور ﷺ پر درود نازل فرماتے ہیں، یہ فضیلت کسی نبی کے اندر نہیں پائی جاتی، اللہ تعالیٰ نے اسریٰ و معراج حضور ﷺ کو عطا فرمائی یہ فضیلت بھی کسی نبی کے حصہ میں نہیں آئی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی تمام تر فضیلتوں کے باوجود وہ آخری زمانہ میں محمدِ عربی ﷺ کے امتی بن کر اس امت میں بھیجے جائیں گے۔ اس سے بھی فخر دو عالم ﷺ کی فضیلت دیگر انبیاء علیہم السلام والتسلیم پر ثابت ہوتی ہے۔ مزید بتہ سے فضائل ہیں۔

۲۔ حضرت مریم پر یہودی بہتان باندھتے تھے جس کا جواب قرآنِ کریم نے دیا ہے اس لئے حضرت مریم  کا ذکر قرآن میں بیشمار جگہ پر آیا ہے۔ یہ بھی عیسائیوں کے لئے سوچنے سمجھنے کی بات ہے کہ جس کا جواب عیسائی نہ دے سکے اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے ان بہتانات کا جواب اپنے کلام میں دے دیا.

مزید دلچسپی رکھنے والے حضرات یہاں پر ان کے جوابات کو تفصیلاً پڑھ سکتے ہیں۔

اللہ پاک تمام انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام پر رحمتیں نازل فرمائیں۔

آمین۔

قرآن کا چیلینج قیامت تک—- ملحدین کی نقاب کشائی

Standard

بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم، قرآن ِ کریم کا چیلینج رہتی دینا تک پر ملحدین نے آیتوں کو اپنے سیاق و سباق سے نکال کر جواب دینے کی ناکام کوشش کی ہے کہ قرآن کے اس چیلینج کے اس جیسی ایک سورت بھی لاکر دکھادو کا جواب مشرکینِ مکہ کے شعراء نے دیا ہے۔

قرآن کریم ہی کے انداز میں ہمارا ان ملحدوں سے سوال ہے

 هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

اپنی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو،

یہ بات ثابت کردو کہ واقعی مشرکینِ مکہ نے جواب دیا ہے اور اس قرآن عظیم جیسی کوئی سورت ان لوگوں نے بھی لکھی تھی۔

اٹکل پچوؤں سے تمھاری بات سچ ہونے والی نہیں ہے۔ تمھارے جھوٹے دعوؤں میں سے ایک اور جھوٹ عیاں ہوگیا ہے۔

ایسا کیسے ممکن ہے کہ مشرکینِ مکہ کے جواب دینے کے باوجود اور نعوذ باللہ قرآن کے دعوے غلط ہونے کے باوجود بھی مکہ کے لوگ اور عرب کے لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس وقت مکہ والوں کے پاس سارے عالم سے لوگ حج کے سیزن میں آتے تھے اور قریش بڑا ہی عظمت والا قبیلہ تھا وہ تو اس کا خوب اشتہار کرتے اور اسلام کے خلاف اتنا عظیم موقعہ ہاتھ سے گوانے کا ان کے پاس کوئی مانع نہیں تھا۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ابولہب،ابو جھل وغیرہ وغیرہ اس سنہرے موقعہ کو ہاتھ سے جانے دیتے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ سفیانؓ اس عظیم فتح کے بعد اسلام کے آغوش میں آتے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مکہ والے جو مسلمانوں اور بیغمبرِ اسلام علیہ الصلوٰۃ و سلام کے قتل کے در پر تھے اور بدر،احد،احزاب جیسے عظیم معرکہ ہوئے اور کئی کفار جھنم رسید ہوئے۔ اس سے تو آسان ان کے لئے یہ بات تھی کہ وہ ان آیتوں یا سورتوں کی تشہیر کرتے جس کا تم (اے ملحدو!) دعویٰ کرتے ہو۔

ان جانی و مالی خسارے اٹھانے سے زیادہ اچھا موقعہ اور اسلام کو شکست دینے کا بہترین موقعہ اس سے زیادہ کیا ہوسکتا تھا کہ بیغمرِ اسلام ﷺ نے جو دعویٰ قرآن کریم کے ذریعہ پیش کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس جیسی دس سورتیں لے آو ، اور اس دعوے کے جواب کے بعد قریش اور مشرکین خاموش بیٹھ گئے اور حالت تو  یہ تھی کہ انہیں مسلمانوں پر دست ترس حاصل تھی اور مسلمانوں کو ایذاء رسانی بھی کرتے تھے ۔

الحمد للہ ہمارا دعویٰ ہے کہ آج تک قرآن کریم کے اس چیلینج کو کسی نےبھی پورا نہیں کیا ہے اور نہ کرسکے گا۔

اسلام اور آزاد خیالی مکمل

Standard

اسلام …………….. اور آزاد خیالی

ایک مباحثہ کے دوران میرے ایک رفیق نے کہا کہ تم آزاد خیال نہیں ہو……

میں: وہ کیسے؟

وہ:کیا تم ایک خدا کے وجود پر عقیدہ رکھتے ہو؟

میں: ہاں! یہ میرا ایمان ہے۔

وہ: اور پھر اس کے لئے نمازیں بھی پڑھتے ہو اور روزے بھی رکھتے ہو؟

میں: جی ہاں۔

وہ: تو پھر آپ آزاد خیال (Free Thinker) نہیں ہیں۔

میں: آخر یہ کیوں؟

وہ: آپ ایک نا معقول اور خرافات چیز پر عقیدہ رکھتے ہیں جس کا کوئی وجود نہیں ہے۔

میں: آپ اور آپ کے ہم خیال کس چیز پر عقیدہ رکھتے ہیں۔ آپ کے خیال میں اس کائنات کا اور زندگی کا خالق کون ہے؟

وہ: فطرت(Nature)

میں: آخر یہ فطرت کیا چیز؟

وہ: فطرت ایک لا محدود مخفی طاقت ہے۔ البتہ حواسِ خمسہ انسایہ کے لئے یہ ممکن ہے کہ اس کے مظاہر و آثار کا ادراک کرسکیں۔

آخر میں مَیں نے کہا کہ میں سمجھ گیا۔ آپ اپنے اس بیان کے ذریعہ ایک نامعلوم مخفی،قادر مطلق پر عقیدے سے ہٹا کر ایک نامعلوم قوت پر ایمان لانے کی دعوت دے رہے ہیں، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر میں اپنے خدا کا انکار کیوں کروں؟ اسی طرح کے ایک دوسرے نامعلوم القوۃ خدا بلکہ جھوٹے خدا کی خاطر۔ آپ مجھ سے میرا وہ خدا کیوں چھیننا چاہتے ہیں جس کی عبدیت میں مجھے امن، سکون اور سلامتی و ایمان جیسی لازوال نعمتیں ملتی ہیں۔ اور اس کے بدلے میں مجھے ایسا خدا دینا چاہتے ہیں جو نہ تو میری کسی بات کا جواب دے سکتا ہے اور نہ امن و سکون فراہم کرسکتا ہے۔

            مختصراً یہ ان تمام ترقی پسندوں کاعقیدہ ہے، جو آزادئ خیال کی گفتگو کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک ، آزادئ خیال، ایک خدا کے انکار کے مترادف ایک لفظ ہے لیکن کسی صورت میں بھی اسے آزادئ خیال نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ تو الحاد پرستی ہے۔ جس کی بیناد پر عمارت الحاد کی تعمیر کرتے ہوئے وہ لوگ اسلام پر الزام تراشی کرتے ہیں، حالانکہ انکارِ خدا کے معنی میں آزاد خیالی کو اسلام سختی سے منع کرتا ہے کیوں کہ اسلام الحاد کا دشمن ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آزاد خیالی اور الحاد دونوں ہم معنی لفظ ہیں اور ایک ہی چیز ہیں اور کیا الحاد درحقیقت آزاد خیالی کی پہلی شرط ہے۔ معاملہ اصلاً یوں ہے کہ مغرب کے آزاد خیالوں کی تاریخ سے غلط طور پر متاثر ہو کر یہ لوگ اس حقیقت کی طرف نظریں دوڑاتے ہیں جب کہ کچھ مقامی اسباب و وجوہ کی بنا پر الحاد کا پروپگنڈہ یورپ میں ہوا تھا لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ یہی تاریخ دینا میں ہر کہیں دہرائی جائے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مسیحیت کا وہ تصور جو یوروپ میں اہل کلیسا نے پیش کیا تھا اور اہلِ علم کے ساتھ جو انسانیت سوز برتاؤ انہوں نے کیا تھا مثلاً علم و سائنس کو دیس نکالا دینا، اہل علم اور سائنسدانوں کو طرح طرح کی سزائیں دینا، اوہام و خرافات،جھوٹ اور  لغو باتوں کو کلامِ الٰہی کہہ کر عوام کو اس پر عمل کی دعوت دینا وغیرہ نے یوروپ میں آزاد خیالوں کے لئے الحاد کا راستہ ہموار کیا تھا، ایسی صورت میں یوروپ کے دانشوروں کے لئے ضروری ہوگیا تھا کہ دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب نہایت صفائی سے کریں، یا تو فطری طور پر ایک خدا پر عقیدہ رکھیں یا سائنس کے علمی و عملی تجربات و مشاہدات پر ایمان لے آئیں۔

یوروپ کے دانشوروں نے فطرت پرستی کے نظریہ میں ایک طرح کی نجات محسوس کی تھی جس کے ذریعہ مذکورہ بالا فریب کے جال سے بچ سکتے تھے۔ اس لئے انہوں نے کلیسا سے صاف صاف کہہ دیا کہ “تم اپنے اس خدا کو لے جاؤ جس کے نام پر تم ہمیں غلام بنائے ہوئے ہو، گران بار ٹیکسوں کے بوجھ تلے ہمیں دبائے ہوئے ہو۔ تمہارے ان خداؤن پر ایمان لانے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم زاہد و درویش ہوجائیں گے، تارک الدنیا راہب ہوجائیں گے اس لئے ہم ایک نئے خدا پر ایمان لارہے ہیں، جس کے اندر معبودِ اول کی اکثر خوبیان موجود ہوں گی لیکن اس کے لئے کوئی گرجا(church) نہ ہوگا جو لوگوں کو غلام بنائے اور نہ ہی اس نئے دین کی طرف لوگوں پر اخلاقی، فکری اور مادی قسم کی کوئی پابندی ہوگی، جیسا کہ تمہارے دین میں ہے۔ بلکہ ہم اس کی وسعتوں میں ہر طرح کی قید سے آزاد ہوں گے۔

مذکورہ بالا بیان کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ اسلام میں اس طرح کی کوئی ایسی چیز نہیں پائی جاتی ہے جو الحاد کی طرف رہنمائی کرتی ہو۔ اور نہ ہی عقیدہ کو سمجھنے کے سلسلہ میں کوئی مشکل چیز در پیش ہے جو ذہن کو پریشان کرے۔ مثلاً خدا ایک ہے وہی ساری کائنات کا خالق ہے، اور پھر ایک دین اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، وہ خدا اکیلاہے، اس کا کوئی ساجھی و شریک نہیں ہے، اس کے فیصلوں پر کوئی مواخذہ کرنے والا نہیں ہے۔” یہ اتنا واضح اور سادہ مفہوم ہے کہ کوئی بھی شخص حتیٰ کہ نیچری اور ملحد بھی بڑی مشکل سے اس کا انکار تو درکنار اس میں شبہ بھی کرسکتا ہے۔

اسلام میں اس طرح کے مذہبی لوگ نہیں ہیں جیسے یوروپ میں پوپ و پادری ہوتے ہیں، بلکہ یہاں مذہب ساری نوع انسانی کی مشترکہ میراث ہے۔ اپنی فطری، ذہنی اور روحانی صلاحیتوں اور ضرورت کے مطابق ہر شخص اس چشمہ سے سیراب ہو سکتا ہے۔ اسلام میں سب مسلمان برابر ہیں۔ اس میں زندگی کی بنیادی ضرورتوں اور معیار کارکردگی کی روشنی میں ہر شخص کے درجے متعین ہیں۔ا لبتہ اللہ کی نظروں میں سب سے معزز و محترم وہ لوگ ہیں جو متقی و پرہیز گار ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انجینئر ہے یا مدرس، کوئی فنکار ہے یا کارخانہ کا مزدور، کیوں کہ مذہب صنعتوں اور پیشوں کی طرح کوئی پیشہ نہیں ہے کہ لوگ اپنے پیشوں کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام میں پیشہ ور پادری نہیں ہوتے ہیں۔ چنانچہ عبادات پنجگانہ وغیرہ کی کاروائیاں پیشہ ور مذہبی شخصیتوں کی مداخلت کے بغیر بحسن و خوبی انجام پذیر ہوتی ہیں۔

البتہ یہ ضروری ہے کہ کچھ علوم فقہیہ اور مسائل شرعیہ کے ماہر ہوں کہ یہی علوم امور عامہ کی بنیاد ہیں تاکہ معاملات کے فیصلوں میں آسانی ہو تاہم ان اسلامی  علوم کے ماہرین اور فقہاء کا مرتبہ دنیا کے دوسرے ملکوں ہی کی طرح ہوگا۔ انہیں اپنے علمی اعزاز کی بنا پر عوام پر فوقیت اور برتری حاصل نہ ہوگی اور نہ ہی درجہ واری اعتبار سے کوئی امتیاز حاصل ہوگا۔ بلکہ ان کی حیثیت صرف ایک قانونی مشیر کی ہوگی (جیسا کہ سلیمان بن عبد الملک کے دورِ حکومت میں عمر بن عبد العزیزؒ خلیفہ مذکور کے مشیر کی حیثیت سے کام کرتے تھے) اور اگر کچھ لوگ ایسے ہوں بھی جو اپنے آپ کو علامہ دہر اور مفتی اعظم کہتے ہوں، تو اپنے منھ میاں مٹھو  بناکریں۔ بہر حال انہیں عوام پر کسی قسم کا کوئی غلبہ حاصل نہ ہوگا۔ صرف قانونی ہی دائرہ تک ان کی سرگرمیاں محدود ہوں گی امور عامہ میں انہیں دخل اندازی کا کچھ بھی اختیار نہ ہوگا۔ مثلاً

“جامعہ ازہر مصر” ایک دینی درسگاہ ہے لیکن اسے قطعی یہ اختیار نہیں کہ اہل علم و فضل کے جلانے یا انہیں آزمائشوں میں مبتلا کئے جانے کا کوئی حکم دے ہاں اسے صرف اتنی گنجائش ہے کہ کسی شخص کے اپنے ذاتی ںظریہ مذہب اور فہم دین پر تنقید کرسکتی ہے یعنی تفہیم و تنقیح میں جامعہ ازہر آزاد ہے یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے علمائے ازہر کے مذہبی خیالات پر تنقید و تبصرہ کرنے میں عام لوگ بھی آزاد ہیں کیوں کہ اسلام کسی ایک شخص یا جماعت کی جاگیر نہیں ہے اس لئے اپنی گزر اوقات کے پیشوں کا لحاظ کئے بغیر وہ سبھی لوگ مذہبیات کے ماہر سمجھے جائیں گے جو مذہب کا گہرا مطالعہ رکھتے ہیں اور اپنی زندگیوں میں اس کا عملی مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔

اس موقع پر ایک بات کی وضاحت کردینا بہت ضروری ہے کہ جب حکومت اسلامیہ کا قیام عمل میں آئے گا تو یہ ضروری نہیں ہوگا کہ علماء ہی گورنر،منسٹر اور شعبوں کے صدر ہوں۔ اگر کوئی تبدیلی ہوگی بھی تو صرف یہ کہ نظام حکومت کی بنیاد شریعت اسلامیہ پر رکھی جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ خدا کی زمین پر خدا کا قانون چلے گا، ورنہ بقیہ امور بدستور ہوں گے وہ اس طور پر کہ شعبہ انجینئرنگ کا صدر انجینئر ہوگا، اسپتالوں کے ذمہ دار ڈاکٹر ہوں گے اور معاشی امور کی رہبری ماہرین معاشیات ہی کے ذمہ ہوگی۔ اس طرح تمام شعبہ جات زندگی کے اندر اسلامی روح کار فرما ہوگی۔

تاریخ شاہد ہے کہ نہ تو اسلامی عقائد اور نہ ہی اسلامی حکومت نے اہلِ علم اور سائنسدانوں کے تجربات و مشاہدات کے راستہ میں کبھی بھی کسی قسم کی رکاوٹ پیدا کی ہے۔ اسلامی عظمت و اقتدار کے دور میں ہمارے کانوں نے ایسی کوئی خبر نہیں سنی کہ تجربہ، کسی نئی تحقیق و جستجو، کسی نئے نظریہ و خیال پر کوئی سائنسداں آگ میں جلایا گیا ہو۔ حقیقی اور سچی سائنس ایک مسلمان کے اس عقیدہ سے متصادم نہیں ہوتی ہے کہ اللہ ہی وہ ہے جو ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے۔ اسلام تو خود ہی بنی نوع انسان کو دعوت دیتا ہے کہ زمین و آسمان کا مشاہدہ و مطالعہ کریں ، ان کی پیدائش پر غور و فکر کریں تاکہ اس کے ذریعہ خدا کی معرفت حاصل ہوسکے۔ صحیح اور سچی سائنس اور تلاش و جستجو کے راستے یوروپ کے بہت ملحد سائنسدانوں کو خدا  تک رسائی نصیب ہوئی ہے۔

اسلام میں اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے جو عوام کو الحاد اور بے دینی کی ترغیب دیتی ہو اور یہ جو معدودے چند ملحد اور منکر مشرق ہی میں پائے جاتے ہیں، وہ اپنے استعمار پسند آقاؤں کی خواہشوں کے اندھے غلام ہیں، ان مذاہب بیزاروں کی خواہش ہے کہ انہیں عقائد و عبادات پر حملہ کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی جائے تاکہ وہ لوگوں کو ترک مذہب پر آمادہ کرسکیں لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ آکر وہ ایسا کیوں چاہتے ہیں؟

معاملہ درحقیقت یوں ہے کہ مغربی ممالک میں لوگ اپنے ذہنوں کو اوہام و خرافات سے آزاد کرنے اور عوام کو ظلم و تشدد سے نجات دلانے کے نام پر مذہب پر حملہ کرنے لگتے ہیں۔ مگر جب اسلامی شریعت انہیں وہ تمام آزادیاں دے رہی ہے جس کی انہیں ضرورت ہے تو پھر آخر کیوں مذہب پر رکیک حملے کرتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نام نہاد آزاد خیال (Liberals) آزاد خیالی میں ذرا بھی دلچسپی نہیں لیتے بلکہ اس سے زیادہ تو وہ اخلاقی گرواٹ،بے حیائی پھیلانے اور وحشیانہ جنسے بے راہ روی عام کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں آزاد خیالی کا نعرہ دراصل ایک نقاب ہے جس میں وہ اپنی جنسی اور دیگر پست خواہشات کو ڈھکے ہوتے ہیں۔ بقول علامہ اقبالؒ

براہیمی    نظر     پیدا      مگر     مشکل     سے     ہوتی     ہے

ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنالیتی ہے تصویریں

یہ نعرہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ مذہب و اخلاق کے خلاف ان کی بیہودہ جنگ کا جھنڈا ہے۔ وہ لوگ اسلام کے مخالف اس لئے نہیں ہیں کہ اسلام آزاد خیالی کا دشمن ہے بلکہ وہ اس لئے اس کے منکر ہیں کہ اسلام سطحی اور گندی خواہشات کے غلبہ و تسلط سے انسانیت کو نجات دینے کے لئے ان سے نبرد آزما ہے۔

آزاد خیالی کے علمبردار، اسلام پر الزام لگاتے ہیں کہ اسلام کا نظامِ حکومت خود مختارانہ ہے، کیوں کہ یہاں حکومت ایک وسیع اقتدار کی مالک ہوتی ہے اور یہ کتنی بری بات ہے کہ مذہب کے نام پر لامحدود طاقت و اختیارات سے کوئی جماعت فائدہ اٹھائے۔ ظاہر ہے کہ مذہب ایک مقدس چیز ہے۔ لوگوں کے دلوں پر اس کا غلبہ ہے۔ لوگوں کے لئے اس میں بڑی کشش ہے، اس لئے آنکھیں بند کر کے اس نظام حکومت کے ظلم و ستم کو لوگ برداشت کر لیتے ہیں۔ انہیں لوگوں کا خیلا ہے کہ یہ وسیع و لامحدود اختیارات خود مختاری کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ایسی صورت میں عوام ایک غلام کی طرح آزاد خیالی سے محروم ہو جاتے ہیں، ہمیشہ ہمیش کے لئے آزاد خیالی کا گلا گھٹ جاتا ہے۔ پھر کوئی شخص حکمراں طبقے کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت نہیں کرتا ہے اور اگر کبھی ایسا کوئی کرلیتا ہے تو اس پر خدا اور مذہب کے خلاف بغاوت کا الزام لگتا ہے۔

مذکورہ بالا غلط اور جھوٹے الزامات کی نہایت مدلل اور خوبصور تردید خود قرآن حکیم اور اقوالِ صحابہؓ میں موجود ہے۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:

وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ

ترجمہ: وہ لوگ اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں۔(سورہ ۴۲ آیت ۳۸)

ایک دوسری آیت میں وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ  (سورہ ۴ آیت ۵۸)

ترجمہ: اور جو لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔

خلیفہ اول ابو بکر صدیقؓ فرماتے ہیں اگر میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کرنے لگوں تو تمہارے اوپر میری کوئی اطاعت نہیں ہے ۔ اسی طرح فاروقِ اعظمؓ فرماتے ہیں: اگر میرے اندر تم کوئی کجی دیکھو تو اسے درست کردو، اسی موقعہ پر ایک مسلمان نے کھڑے ہو کر فوراً کہا “بخدا اگر ہمیں ذرا بھی کوئی کجی محسوس ہوئی تو ہم اسے تلوار کی دھار سے درست کردیں گے۔”

یہ صحیح ہے کہ مذہب کے نام پر ایک عرصہ تک دنیا میں ظلم و ستم کی حکمرانی رہی اور یہ بھی سچ ہے کہ اب تک بعض ملکوں میں مذہب ہی کے نام پر ظلم وستم کا دور دورہ ہے۔ لیکن سوال اٹھتا ہے کہ کیا مذہب ہی تنہا وہ نقاب ہے جسے ظالم حکمراں استعمال کرتے رہے ہیں۔ کیا ہٹلر نے اسی مذہب کے نام پر حکومت کی تھی؟ یا اسٹالن جس کے بارے میں روسی صحافیوں اور دانشوروں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ وہ بڑا سخت گیر،ظالم، مطلق العنان تھا، اس نے روس پر ایک پولیس کی طرح حکومت کی ہے اس نے اپنی حکومت و اقتدار کی خاطر مذہب ہی کا نعرہ بلند کیا تھا؟اور کرتہے ہیں، یہ تو وہ لوگ ہیں جو مذہب کے نام پر چراغ پا ہوجاتے ہیں اور مذہب کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اس لئے اب یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ بیسویں صدی جس نے مذہب سے نجات پانے کے لئے کیا کیا نہ جتن کئے اور اس کے لئے کیا کیا قربانیاں نہ دیں، مگر اسے وحشیانہ مطلق العنانی کا وہ دور دیکھنا پڑا  جس میں مذہب سے زیادہ پر کشش اور مقدس نام کے سہارے بنی نوع انسان کو زبردست فریب دیا گیا۔

کوئی بھی شخص مطلق العنانی (Dictatorship) کی تعریف نہیں کرسکتا اور نہ ہی کوئی آزاد ذہن و دماغ اور بیدار قلب و ضمیر والا انسان اسے تسلیم ہی کرسکتا ہے۔ اسی طرح فطرت و طبیعت کی سلامت روی کا تقاضا تو یہ ہے کہ خواہشات نفسانی کی اتباع کئے بغیر حق خالص کا اقرار کرلیا جائے۔ لیکن اس کے برعکس دیکھنے میں یہ آیا کہ ہر خوبصورت اور محترم اصول (principle) کو غلط طور پر استعمال کیا گیا ہےا ور اپنے ذاتی اغراض و مفاد کو چھپانے کے لئے اسے بہترین پردہ بنایا گیا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انقلاب فرانس (French Revolution) کے نشہ کے دوران اسی آزاد خیالی (Liberalism) کے نام پر انتہائی بد ترین اور خبیث قسم کے جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ تو کیا اس کی روشنی میں ہم جذبۂ استقلال و حریت کو لغو قرار دے دیں؟ اور اسی طرح سینکڑوں بے قصور اور معصوم انسانوں کو دستور کے نام پر قید و بند کی صوعبتیں جھیلنا پڑیں،سزائیں دی گئیں، یہاں تک کہ رسم دار ورسن بھی پوری کی گئی، تو کیا اس وجہ سے ہم دستور کو ایک قلم منسوخ کردیں ، یا کچھ ملکوں میں مذہب کے نام پر اب بھی ظلم وستم کی حکمرانی ہے۔ کیا یہ مناسب بات کوگی کہ اس سے نجات پانے کے لئے ہم مذہب ہی سے محروم ہوجائیں؟ ہاں ہم ایسے مذہب کو ضرور دیس نکالا دیں گے اور اسے ممنوع قرار دیں گے جو اپنے نصاب تعلیم، نظریاتِ زندگی، نیز بذات خود ظلم و تشدد اور ناانصافی کی تبلیغ و اشاعت کرتا ہوگا۔ لیکن کیا یہ مثال اسلام پر بھی صادق آتی ہے؟ جو کہ عدل و انصاف کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ اور خاص بات تو یہ ہے کہ اسلام کا عدل و مساوات صرف مسلمانوں ہی کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ نازک سے نازک حالات میں بھی غیر مسلموں،دشمنوں،جنگی حملہ آوروں کے لئے بھی عام ہے۔

آئیے، ذرا سوچیں کہ آخر اس کا علاج کیا ہوسکتا ہے؟ تو حالات و مشاہدات سے واضح ہوتا ہے کہ ظلم و ستم،سرکشی و بغاوت سے نپٹنے کے لئے صرف ایک طریقہ ہے، وہ یہ کہ اہل ایمان کا ہر اول دستہ تیار کیا جائے جو اللہ وحدہ لا شریک لہ پر پختہ عقیدہ رکھتا ہو اور اس آزادی کا احترام کرتا ہو جس کی دعوت مذہب نے دی ہے اور جس آزادی کی حفاظت کی ذمہ داری خود مذہب کے اوپر ہے۔ یہ ایمانی ہر اول دستہ ظالم حکمراں کو کبھی بھی نا انصافی کی اجازت نہیں دے گا۔ بلکہ جائز اختیرات کے حدود میں رہ کر انہیں کام کرنے کی ترغیب دے گا۔ میرا خیال ہے کہ عدل و انصاف کا استحکام و قیام نیز جبر و تشدد کا مقابلہ کرنے کے لئے اسلام سے بہتر کبھی بھی کسی نظام حکومت کی تشکیل اس سر زمین پر نہیں ہوئی۔ اسلام نے عوام پر ذمہ داری ڈالی ہے کہ اگر حکمراں منصف نہ ہوں تو انہیں صحیح راستہ پر لگائیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے

من رأى منكم منكرا فليغيره (صحیح مسلم)

یعنی تم میں کا کوئی شخص اگر برائی دیکھے تو اسے دور کرے۔ دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ

“یعنی عدل انصاف کا ایک کلمہ (بات) جو ظالم بادشاہ کے سامنے کہا گیا ہو وہ جہاد سے بڑھ کر ہے۔(ابو داود و ترمذی)

بہر حال آخر میں ہم اپنے ترقی پسند اور آزاد خیال (progressive & Free Thinker) بھائیوں سے صرف ایک بات کہیں گے وہ یہ کہ آزادئ خیال کا صحیح راستہ اور ذریعہ مذہب بیزاری نہیں ہے بلکہ اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو ایسی مضطرب اور انقلاب انگیز روح سے آشنا کرایا جائے جو ظلم سے نفرت کرتی ہو اور ظالم کا مقابلہ کرسکتی ہو دراصل یہی جذبۂ ایمانی اور روح مسلمانی ہے جو بندۂ مؤمن کو مطلوب ہے۔

اے خدا سینۂ مسلم کو عطا ہو وہ گداز

تھا  کبھی  حمزہؓ  و  حیدرؓ  کا  جو  سرمایۂ  ناز

پھر فضا میں تیری تکبیر کی گونجے آواز

پھر تو اس قوم کو دے گرمی روح آغاز

نقش  اسلام  ابھر  آئے  جلی  ہوجائے

ہر مسلمان  حسینؓ   ابن  علیؓ  ہو جائے

(جوشؔ)