وفات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک پر اعتراض اور اس کا جواب

Standard

منکرینِ حدیث کے اعتراضات کا جائزہ

منکرین حدیث امت کو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے -جو کہ قرآن مجید کا حکم ہے- دور کر کے نفس کی اتباع میں لانے کے لئے احادیث کا اپنی طرف سے مطلب بیان کرنا اور ان میں تعارض بتا کر ان سے امت کو دور کرنے کی ناکام سازش میں لگے ہوئے ہیں۔

ان کی اس سازشی اعتراضات میں سے ایک اعتراض کا جواب دینے کی ہم نے کوشش کی ہے، ممکن ہے کسی حق پسند کو سمجھ آجائے اور وہ اپنے باطل عقائد سے توبہ کرلے۔

یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لئے بھیجا کہ ان کی اتباع کی جائے اور ان کو اس لئے بھی بھیجا کہ وہ آیات تلاوت فرمائیں اور لوگوں کا تزکیہ کریں اور ان کو قرآن ہ حکمت کی باتیں بتائیں جیسا کہ یہ بات قرآن کریم میں موجود ہے (دیکھئے سورہ الجمعہ آیت نمبر ۲)

اب یہی حکمت کی باتیں ہمیں احادثِ مبارکہ سے ملتی ہے، یہی احادیثِ مبارکہ ہے جن سے ہمیں قرآن کی تشریح و تفسیر ملتی ہے۔

خیر اعتراض اور اس کے جواب سے پہلے ایک بات یہ سمجھ لیں اور آپ سب خود اپنے اپنے علاقہ میں ایسا کرتے ہوں گے۔

کسی عدد کو بتانے کے لئے کبھی تو پورہ بتاتے ہیں اور کبھی اس کو دھائیوں میں بتاتے ہیں مثلاً

کسی چیز کو آپ نے ۳۵۳۵ میں خریدا ہو، تو کسی کے پوچھنے پر تو یہ کہتے ہیں کہ بھائی میں نے اس کو ساڑھے تین ہزار میں خریدا ہے، اسی طرح کبھی کسی کو پورا عدد بتاتے ہیں کہ میں نے اس کو تین ہزار پانچ سو پینتیس میں خریدا وغیرہ وغیرہ۔

اب آئیے منکرین حدیث کا اعتراض دیکھتے ہیں۔

منکر حدیث صحیح بخاری پر اعتراض کرتے ہوئے کہتا ہے کہ

“اس میں ایک روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر  63 سال بتائی ہے اور ایک میں 60 سال۔”

اس اعتراض میں کچھ دم نہیں اصل میں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ایک روایت میں فرمایا

«تُوُفِّيَ، وَهُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّينَ»

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترسٹھ برس کی عمر میں وفات ہوئی(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب کم سن رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔ 2348، صحیح بخاری  کتاب المناقب باب وفاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم 3536 عن عائشۃ رضی اللہ عنہا)

اور دوسری روایت میں فرمایا

تَوَفَّاهُ اللَّهُ عَلَى رَأْسِ سِتِّينَ سَنَةً

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساٹھ سال کے سرے  پر اللہ تعالیٰ نے وفات دی۔(کتاب اللباس باب الجعد حدیث 5900)

آپ نے جو اوپر مثال سمجھی کہ کبھی ہم دہائیوں میں بات کہتے ہیں اور کبھی تفصیل سے دہائیوں کے ساتھ آنے اور پائی بھی ذکر کرتے ہیں۔

اور آپ روایت کے الفاظ اگر دیکھیں گے تو اس میں بھی وضاحت ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ صرف 60 سال نہیں بلکہ “علی راس” کا لفظ استعمال فرمائے ہے یعنی 60 سال کے سرے پر اور دہائی کے اوپر کے عدد کو عرب لوگ کبھی واضح کرتے تھے کبھی حذف کرتے تھے جیسا کہ ہم بھی کرتے ہیں۔ تو اس میں شرعاً، عقلاً اور عرفاً  کوئی خرابی نہیں ہے، بس اعتراض کرنے والے کے دماغ میں فطور ہے۔

آنکھیں اگر ہیں بند تو پھر دن بھی رات ہے

اس میں بھلا قصور کیا ہے آفتا ب کا

آخر میں ایک گذارش یہ ہے کہ اگر کوئی دہریہ قرآن پر اعتراض کریگا تو کیا آپ قرآن چھوڑ دو گے؟؟؟

نہیں نا، تو پھر ان جیسے اعتراض اگر آپ کے سامنے آئیں تو علماء حق سے رجوع ہوں ان شاء اللہ تشفی بخش جواب ملے گا۔

اللہ پاک ہم کو قرآن و سنت پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے اور باطل کے مکر و فریب سے ہماری اور پوری امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے۔

آمین یا رب العالمین۔

منکرین حدیث اور صحیح بخاری

Standard

منکرین حدیث کے وسوسوں کا جواب

الف)جب تک بخاری نہیں تھی تم حدیث کو ماننے والے نماز کس طرح پڑھتے تھے؟

جواب: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے سیکھا۔ اور ان میں سے بہت سے صحابہ حدیث لکھا بھی کرتے تھے حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بھی حدیث لکھا کرتے تھے جس کی وضاحت صحیح بخاری میں ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ کی زبانی موجود ہے۔

اور حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کی تمام روایات کو ان کے شاگرد نے لکھ کر جمع کیا ہے۔

اور بھی تفصیل ہے جو اپ تدوین حدیث کے موضوع پر کتاب میں پڑھ سکتے ہیں۔

اور ان جاہلوں کو صرف بخاری پتا ہے حالنکہ امام بخاری سے پھلے بھی بہت سی حدیث کی کتابین وجود میں آگئی تھی اور فقھاء نے فقھی مسائل بھی احادیث سے مستنبط کر کے نکال دیے تھے۔

حدیث کی کتابوں میں مشہور امام مالکؒ کی مؤطا ہے اور امام ابو یوسف اور امام محمد کی کتاب الآثار ہے، اسی طرح امام شافعیؒ کی کتاب الام ہے، امام احمد کی مسند احمد ہے۔ اور بھی بہت سی کتابیں موجود ہیں۔

میرا سوال ان منکرینِ حدیث سے یہ ہے کت تم لوگ نماز کس طرح پڑھتے ہو۔

کتنی رکعت پڑھتے ہو۔؟

کتنی نمازیں پڑھتے ہو۔؟

فرض اور سنت کا کوئی تصور ہے کہ نہیں تمھارے پاس۔؟

ب)منکرین حدیث کا الزام کے ہم نے بخاری کو قرآن کا درجہ دیا ہے۔

حالانکہ ہمارے اصول کی کتابوں میں یہ بات واضح الفاظ میں لکھی ہوئی ہے

اصح كتب بعد كتاب الله البخاري

یعنی قرآن کریم کے بعد سب سے صحیح کتاب صحیح بخاری ہے۔

منکرین حدیث سے دس سوالات

Standard

اسلام مکمل دین ہے۔ منکرینِ حدیث سے چند سوالات

قرآن مجید رہتی دنیا تک ہمیشہ کے لیے دین اسلام کے کامل ہونے کا اعلان فرمایا ہے، چنانچہ سورہ مائدہ میں ارشاد ہے

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا

ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمھارے دین کو کامل کردیا اور میں نے تم پر اپنا انعام پورا کردیا، اور میں نے تمہارے  لیے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کرلیا، (سورہ المائدہ 5 آیت 3)

اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ دین اسلام کامل دین ہے، ہم منکرینِ حدیث سے سوال کرتے ہیں کہ جب دین کامل ہے اور تمہارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول فعل حجت نہیں ہے( جسے حدیث کہتے ہیں) تو تم پورا دین قرآن سے ثابت کرو۔

1.قرآن مجید میں نماز کا حکم ہے، بتاؤ قرآن کی کون سی آیت میں نماز کی رکعتوں کی تعداد بتائی ہے، اور رکوع اور سجدہ میں پڑھنے کو کیا بتایا ہے، نماز میں نظر کہاں رہے، ہاتھ کہاں رہیں یہ سب قرآن سے ثابت کریں۔

  1. اسی طرح قرآن مجید میں جگہ جگہ زکوٰۃ دینے کا ذکر ہے، زکوٰۃ کتنی فرض ہے؟ کس مال میں فرض ہے؟ کتنے کتنے دنوں یا مہینوں کے فصل سے دی جائے، درمیان میں جو مال آئے اس کی زکوٰۃ واجب ہے یا نہیں؟ یہ سب امور قرآن سے ثابت کریں۔

3.قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ نماز کو کھڑے ہو تو ہاتھ پاؤں منہ دھو لو اور سر کا مسح کرو (سورہ المائدہ 5 آیت 6)۔ اس کو عوام و خواص سب وضو کہتے ہیں۔ اور احادیث شریفہ میں اس کا یہی نام وارد ہوا ہے۔ اس وضو کے توڑنے والی کیا چیزیں ہیں؟ اس کا جواب قرآن سے دیں۔

  1. قرآن مجید میں حج و عمرہ کے پورا کرنے کا حکم ہے(سورہ بقرہ آیت 196)، حج کیسے ہوتا ہے؟ کیا کیا کام کرنے پڑتے ہیں؟ کن کن تاریخوں میں کیا عمل ہوتا ہے؟ اس کے کتنے فرائض ہیں؟ احرام کس طرح باندھا جاتا ہے؟ اس کے کیا لوازم ہیں؟کیا ممنوعات ہیں؟ یہ سب قرآن شریف سے ثابت کریں۔
  2. عمرہ میں کیا کیا افعال ہیں؟ اور اس کا اتمام کس طرح ہوتا ہے؟ وہ بھی قرآن سے ثابت کریں۔
  3. سورہ توبہ میں نمازِ جنازہ کا ذکر ہے(آیت 84) نمازِ جنازہ کس طرح پڑھی جائے؟ اس کا طریقہ ادا کیا ہے؟ یہ سب قرآن مجید سے ثابت کریں۔ نیز ساتھ ہی کفن دفن کا طریقہ بھی قرآن سے ثابت کریں اور یہ بھی بتائیں کہ میت کو غسل دیا جائے یا نہیں اور اگر دیا جائے تو کس طرح دیا جائے؟ ان سب امور کے بارے میں آیاتِ قرآنیہ میں کہاں کہاں ہدایات مذکور ہیں؟
  4. نکاح انسانی زندگی کی اہم ضرورت ہے۔ انعقادِ نکاح کس طرح ہوتا ہے؟ یہ بھی قرآن سے ثابت کریں۔
  5. قرآن مجید میں دیت(خون بہا) کا ذکر ہے(سورہ النساء آیت 92) قرآن مجید سے ثابت کریں کہ ایک جان کی دیت کتنی ہے؟ اور مختلف اعضا کی دیت کتنی ہے؟ اور مرد و عورت کی دیت میں کچھ فرق ہے یا نہیں؟
  6. سارق اور سارقہ(چور اور چورنی) کے ہاتھ کاٹنے کا قرآن مجید میں حکم ہے(سورہ المائدہ آیت 38)قرآن سے ثابت کریں کہ ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے؟(یاد رہے کہ عربی میں ید انگلیوں سے لے کر بغل تک پورے ہاتھ پو بولا جاتا ہے) اور کتنا مال چرانے پر ہاتھ کاٹا جائے، کیا ایک چنا اور ایک لاکھ روپے چرانے کا ایک ہی حکم ہے؟ پھر اگر دوسری بار چوری کرلی تو کیا کیا جائے؟ ان سب امور کا جواب قرآن مجید سے دیں۔

10.قرآن مجید میں زانی اور زانیہ کو ماۃ جلد(سو ضرب) مارنے کا حکم دیا ہے(سورہ النور آیت 2)۔ یہ ضرب کس چیز سے ہو؟ متفرق ہو یا بیک وقت متواتر ہو؟ یہ سب قرآن سے ثابت کریں۔

منکرینِ حدیث ان سوالات کے جوابات قرآن سے دیں اور یہ یقین ہے کہ وہ جوابات قرآن سے نہیں دے سکتے، لہذا یہ اقرار کریں کہ دین اسلام کو جو قرآن نے کامل بتایا یہ اسی طرح سے ہے۔ کہ قرآن کے ساتھ حدیث پر بھی عمل کیا جائے اور یہ بھی تسلیم کرلیں کہ قرآن مجید پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات کے بگیر عمل نہیں ہوسکتا اور یہ بھی اقرار کریں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال حجت ہیں۔

اور یہ بھی اقرار کریں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و ارشادات محفوظ ہیں۔ اگر وہ ہم تک نہ پہونچے ہوں تو  اب قرآن پر عمل ہونے کا کوئی راستہ نہیں رہتا اگر اس وقت قرآن پر عمل نہیں ہوسکتا تو قران دوامی کتاب نہ رہی(العیاذ باللہ)

اور اگر حدیث کو حجت نہیں مانتے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف قرآن سے دین کیسے کامل ہوا؟ قرآن مجید کا اعلان ہے کہ دینِ اسلام کامل ہے اور بے شمار احکام ہیں جو قرآن میں نہیں۔ اور جو احکام قرآن میں مذکور ہیں وہ مجمل ہیں۔ بغیر تشریح اور تفسیر کے ان پر عمل نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی دشمن یہ سوال کرلے کہ قرآن کا فرمان ہے کہ دین اسلام کامل ہے لیکن اس میں تو نماز کی رکعتوں کا ذکر بھی نہیں ہے۔ اور حج کا طریقہ بھی نہیں بتایا وقوفِ عرفات کی تاریخ بھی نہیں بتائی۔ دیت کی مقدار بھی نہیں بتائی وغیرہ وغیرہ تو پھر کیسے کامل ہوا۔ اس سوال کا جواب ملحدو اور منکرو تمہارے پاس کیا ہے؟ کیا انکارِ حدیث کے گمراہانہ دعوے کی پچ میں دین اسلام کو ناقص مان لو گے؟